غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کي
کسي طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مري وفا نے مجھے خوب شرمسار کي
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال انديش
انہوں نے وعدہ کيا اس نے اعتبار کي
نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مرا غبار کيا
تري نگاہ کے تصور ميں ہن نے اسے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھري کو ہم نے پيار کي
ہوا ہے کوئي مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شيوہ اختيار کي
نہ پوچھ دل کي حقيقت مگر يہ کہتے ہيں
وہ بے قرا رہے جس نے بے قرار کي
وہ بات کر جو کبھي آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کيا تو بڑا تو نے افتخار کي