آنکھیں کالے غم کی
اندھیرے میں یُوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی
جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا
آنے والے جابر کا
سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے
سب کے ہونٹوں پر تالے
سب کے دلوں میں بھالے
اندھیرے میں یُوں چمکے دانت بھی غم کے
جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے
سر پر ابنِ آدم کے غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا
یا جلتا بُجھتا شرارا
جو رستے میں آیا سو مارا
غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے
بستی والے بول اُٹھے، اے مالک، اے باری
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری
کب ہو گا فرماں جاری؟
ن م راشد