تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں
میری وفاؤں کے تذکرے
آج بھی ہوائیں کرتی ہیں
میری وفاؤں کے تذکرے
آج بھی ساحل کی وہ ریت کرتی ہے
جس پر بیٹھ کر
میں نے تیرا نام لکھا تھا
جہاں پہروں بیٹھ کر
تیری راہ تکتا تھا
تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں
میری وفاؤں کے تذکرے
وہ پودے بھی کرتے ہیں
جن سے میں تیری خاطر
کُچھ پُھول اُدھار لاتا تھا
چمبیلی میر راہ تکتی ہے
گُلاب میری آہٹ سُننے کو بےتاب ہے
وہ جامن کا پیڑ
اب جامن نہیں دیتا
اگر میں بے وفا ہوتا
میں اکیلا ہی پریشان ہوتا
یوں درخت ، پُھول ، پودے
میرا ساتھ نہیں دیتے
ہوائیں میرا نام نہیں لیتیں
میری وفاؤں کے تذکرے
یوں سر عام نہیں ہوتے
چلو میں مان لیتا ہوں
میں بے وفا سہی
مگر تیری وفائیں کہاں ہیں
تیرے تذکرے نہیں ملتے
ہوائیں تیرا نام نہیں لیتیں
اُس ریت پہ تیرا نام نہیں باقی
اگر با وفاؤں کا یہ صلہ ہے
اور بے وفاؤں کا یہی مرتبہ
تو سُن میری رگ جاں
میں بے وفا ہی بھلا
مگر میرے تذکروں میں
اک باب یہ بھی رہے گا
" تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں "