دُوری کے جو پردے ہیں ٹک ان کو ہٹاؤ نا
آواز ہے مدماتی ، صُورت بھی دکھاؤ نا
راہوں میں بہت چہرے نظروں کو لُبھاتے ہیں
بھر پور لگاوٹ کے جادو بھی جگاتے ہیں
ان اجنبی چہروں کو خوابوں میں بساؤ نا
ان دور کے شعلوں پر جی اپنا جلاؤ نا
ہاں چاندنی راتوں میں جب چاند ستاتا ہے
یادوں کے جھروکے میں اب بھی کوئی آتا ہے
وہ کون سجیلا ہے؟ کچھ نام بتاؤ نا
اوروں سے چُھپاتے ہو ہم سے تو چُھپاؤ نا
ابنِ انشاء