بہت تاخیر سے لیکن
کھلا یہ بھید خود پر بھی
کہ میں اب تک
محبت جان کر جس
جذبہِ دیرینہ کو اپنے لہو سے سینچتی آئی
وہ جس کی ساعت صد ِ مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی
فقط اک شائبہ ہی تھا محبت کا
یونہی عادت تھی ہر رستے پہ اس کے ساتھ چلنے کی
وگرنہ ترکِ خواہش پر
یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا
ذرا سی آنکھ نم ہوتی