دیر ہوئی جب میں چھوٹا سا اک بچہ تھا
راہ میں مجھ کو ایک جوگی نے روکا تھا
تیرے ہاتھ کی ریکھا دیکھنا چاہتا ہوں
ماتھے پہ تیرے جو لکھا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہوں
یہ کہہ کر تھام لی اس نے میری ہتھیلی
جیسے بوجھے کوئی پہیلی
بہت دیر تک وہ مجھ کو تکتا رہا
پھر اک آہ بھری اور کہنے لگا
بالک یہ جو تیرے ہاتھ کی ریکھا ہے
اس میں میں نے تیرا جیون دیکھا ہے
تیرا من اک سندر ناری توڑے گی
اک سپنا بھی نا پاس تیرے چھوڑے گی
رو رو کے ہاتھ تو بڑھائے گا
لیکن چندا ہاتھ تیرے نہ آئے گا
دکھ کا اتنا لمبا ساتھ نہیں دیکھا
میں نے اب تک ایسا ہاتھ نہیں دیکھا
دکھ ہی دکھ تیرے حصے میں آیا ہے
بالک یہ تو کیا لکھوا لایا ہے
ابنِ انشا