Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!
Friday, April 29, 2011
.... بدگُمانی
دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے
بدگُمانی کے سَرد موسم میں
میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے
جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے
وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے
جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی
تب ہُواؤں کے کچھُ وسیلے ہُوئے
کوئی بارش تھی بدگُمانی کی
سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے
... واہمے
واہمے سارے تیرے اپنے ہیں
ہم کہاں تجھ کو بھول سکتے ہیں
میری آنکھوں میں ایک مدت سے
قافلے رُت جگوں کے ٹھہرے ہیں
سر برہنہ ہواؤں سے پوچھو
ذائقے ہجرتوں کے کیسے ہیں
باز اوقات خشک پتے بھی
پاؤں پڑتے ہی چیخ اٹھتے ہیں
عشق کے خوش گمان موسم میں
پتھروں میں گلاب کھلتے ہیں
...جذبے
سبھی جذبے بدلتے جا رہے ہیںکہ جیسے خواب مرتے جا رہے ہیں
کوئی دن کے لیئے دل کے مکیں کونظر انداز کرتے جا رہے ہیں
جو دل کا حال ہے دل جانتا ہےبظاہر تو سنبھلتے جا رہے ہیں
چلے تو ہیں تمہارے شہر سے ہمکفِ افسوس ملتے جا رہے ہیں
کبھی جن میں غرور ِ تازگی تھاوہ خد و خال ڈھلتے جا رہے ہیں
.... محبت کی اسیری
محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا
ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا
کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا
وفاؤں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا
عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا
کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اُس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا
...عشق کی انتہا
ہجر کی بد دعا نہ ہو جانا
دیکھ لینا،سزا نہ ہو جانا
موڑ تو بے شمار آئیں گے
تھک نہ جانا،جدا نہ ہو جانا
عشق کی انتہا نہیں ہوتی
عشق کی انتہا نہ ہو جانا
آخر شب اداس چاند کے ساتھ
ایک بجھتا دِیا نہ ہو جانا
بے ارادہ سفر پہ نکلے ہو
راستوں کی ہوا نہ ہو جانا
زندگی درد سے عبارت ہے
زندگی سے خفا نہ ہو جانا
اِ ک تمہی کو خدا سے مانگا ہے
تم کہیں بے وفا نہ ہو جانا
... خواب کے قیدی
خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھاجب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا
تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میںپہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا
ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیںاک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا
بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہیپھر وہاں جو لوگ سچے تھے انہیں روکا گیا
ہم وہ بے منزل مسافر ہیں جنہیں ہر حال میںہم سفر رکھا گیا اور بے نوا رکھا گیا
کھا گیا شوقِ زورِ بزم آرائی اسےصاحبِ فہم و فراست تھا مگر تنہا گیا
....باقی رہ گئی ہے
سخن آرائی باقی رہ گئی ہےیہی سچائی باقی رہ گئی ہے
سجانا چاہتے تھے محفل ِ دلمگر تنہائی باقی رہ گئی ہے
مجھے بھی شوقِ منزل تھا مگر ابشکستہ پائی باقی رہ گئی ہے
غرور ِ زندگی بننے کو اب تومِری رسوائی باقی رہ گئی ہے
زمیں کے سارے منظر چھپ گئے ہیںمگر بینائی باقی رہ گئی ہے
...عرضِ سوال
عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرضِ سوال سے پہلے
ہجر کی پوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے
دل کا کیا ہے دل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے
کار_محبت ایک سفر ہے جس میں آ جاتا ہے
ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے
کس نے ریت اڑائی شب میں آنکھیں کھول کے رکھیں
کوئی ایک مثال تو دو نا اس کی مثال سے پہلے
عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ
جتنا ممکن ہو طے کرلیں گردِ ملال سے پہلے
...بچھڑنے کے وسوسے
یہ جو ہم سفر میں بھی گھر سا اک بناتے ہیںریت کے سمندر میں کشتیاں جلاتے ہیں
جن پہ فاختاؤں کے گیت پھول بنتے ہیںآؤ ان درختوں پر نام لکھ کے آتے ہیں
اس کے لوٹ آنے کا خواب دیکھتی آنکھیںشام سے دریچے میں رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں
پہلے ساتھ چلنے سے دل کو خوف آتا تھااور اب بچھڑنے کے وسوسے ڈراتے ہیں
وحشتوں کے صحرا میں کون یہ بتائے گاکس کو یاد رکھتے ہیں، کس کو بھول جاتے ہیں
... میری گڑیا
کوئی تو مُجھ کو میرا بھر پُور سراپا لا دےمیرے بازو میری آنکھیں میرا چہرا لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرےاس سے بہتر ہے کہ مجھ کو صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہیے تجھ سے اے میری عمر رواںمیرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوںکوئی تو چہرا تُو میرے شہر میں ایسا لا دے
کشتی جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سےاے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
....وحشت
گھیر لیا ہے وحشت نےاِک بے نام مسافت نے
دل کا رستہ دیکھ لیا ہےایک اداس محبت نے
شہر ِ وفا برباد کیا ہےبے مہری کی عادت نے
آنکھوں کو حیرانی دی ہےدرد کی اتنی شدت نے
ہجر مسافر کر ڈالا ہےآخر اپنی قسمت نے
کارِ سخن آسان کیا ہےصبح و شام ریاضت نے
...رائیگاں
ہر گھڑی رائیگاں گزرتی ھےزندگی اب کہاں گزرتی ھے
درد کی شام دشت ہجراں سےصورت کارواں گزرتی ھے
شب گراتی ھے بجلیاں دل پرصبح آتش بجاں گزرتی ھے
زخم پہلے مہکنے لگتے تھےاب ہوا بے نشاں گزرتی ھے
تو خفا ھے تو دل سے یاد تیریکس لیے مہرباں گزرتی ھے
اپنی گلیوں سے امن کی خواہشتن پہ اوڑھے دھواں گزرتی ھے
مسکرایا نہ کر کہ "محسن" پریہ سخاوت گراں گزرتی ھے
....جستجو
شب کو جب کبھی میں نے اپنی جستجو کی ھے
بے صدا درختوں نے تیری گفتگو کی ھے
دل کی ضد جو ٹھہری ھے اب تو اس کو پانا ھے
فکر زندگی چھوڑو بات آبرو کی ھے
پوچھ تیغ قاتل سے مقتلوں کے میلے میں
ھم نے کس کو ڈھونڈا ھے کس کی آرزو کی ھے
رات دور بیٹھی ھے اک ضعیف ماں بن کر
ھر جوان لاشے پر اک ردا لہو کی ھے
جس کو زرد کر ڈالا دھوپ کی سخاوت نے
شاید اس کلی نے بھی خواہش نمو کی ھے
اے نمازیو ٹھہرو دل کو زخم سہنے دو
کچھ لہو تو بہنے دو یہ گھڑی وضو کی ھے
جس کو عمر بھر پوجا اب اسے گنوا بیٹھے
ہم نے یہ بغاوت بھی اس کے روبرو کی ھے
اپنا جرم ثابت ھے تم سزا سنا دینا
سر کہیں سجا دینا ہر سناں عدو کی ھے
دیکھنا کہیں"محسن"کچھ نشاں نہ پڑ جائے
عکس اس کے چہرے کا،موج آبجو کی ھے
...صف یاراں
1شامل میرا دشمن صف یاراں میں رھے گا
یہ تیر بھی پیوست رگ جان میں رھے گا
اک رسم جنوں اپنے مقدر میں رھے گی
اک چاک سدا اپنے گریبان میں رھے گا
اک اشک ھے آنکھوں میں سو چمکے گا کہاں تک
یہ چاند زد شام غریباں میں رھے گا
میں تجھ سے بچھڑ کر بھی کہاں تجھ سے جدا ھوں
تو خواب صد دیدہ گریاں میں رھے گا
راتوں کی کوئی رت تیری خوشبو نھیں لائی
یہ داغ بھی دامن بہاراں میں رھے گا
اب کے بھی گزر جائیں گے سب وصل کے لمحے
مصروف کوئی وعدہ و پیماں میں رھے گا
وہ حرف جنوں کہہ نہ سکوں گا جو کہوں بھی
اک راز کی صورت دل امکاں میں رھے گا
"محسن"میں حوادث کی ہواؤں میں گھرا ھوں
کیا نقش قدم دشت و بیابان میں رھے گا
... عشق کی مغفرت
حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیےعشق کی مغفرت کی دعا کیجیے
اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجیےجب گلہ کیجیے ہنس دیا کیجیے
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجیے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے
آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجیے
زندگی کٹرہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے
کوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح
ایسے کھُل کے نہ سب سے ملا کیجیے
عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے
...بند دریچہ
سَناٹے میں بند دریچہ کھول دیا کرنارات کو آنکھ میں سوُرج گھول دیا کرنا
زخموں کے مہنگے یاقوُت چُرا لینااُن کے بدلے آنسوُ، تول دیا کرنا
جن میں ’’ جھوُٹے سَچ ‘‘ سے دِل بہلاتے ہواُن میں سچّا جھوُٹ بھی بول دیا کرنا
جب جب پیار کی اَشرفیاں برسانا ہوںمیرے ہاتھوں میں کشکول دیا کرنا
جس شب میری سالگرہ کا ماتم ہوزخم کوئی اُس شب اَنمول دیا کرنا
خَط تصویریں پھول کتابیں محسن کیبھوُل کی ریت پہ رول دیا، کرنا
.... اک شخص
گم صم ھوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص
پتھر بھی نھیں اب وہ،ستارہ تھا جو اک شخص
شاید وہ کوئی حرف دعا ڈھونڈ رھا تھا
چہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص
صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جو اک شخص
اے تیز ھوا کوئی خبر اس کے جنوں کی
تنھا سفر شوق پہ نکلا تھا جو اک شخص
ھاتھوں میں چھپائے ھوئے پھرتا ھے کئی زخم
شیشے کے کھلونوں سے بہلتا تھا جو اک شخص
مڑ مڑ کے اسے دیکھنا چاھیں میری آنکھیں
کچھ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو اک شخص
اب اس نے بھی اپنا لیے دنیا کے قرینے
سائے کی رفاقت سے ڈرتا تھا جو اک شخص
ہر ذہن میں کچھ نقش وفا چھوڑ گیا ھے
کہنے کو بھرے شہر میں تنہا تھا جو اک شخص
منکر ھے وھی اب میری پہچان کا"محسن"
اکثر مجھے خط خون سے لکھتا تھا جو اک شخص
... اختیار
وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ھے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ھے
یہ تجھ کو جاگتے رھنے کا شوق کب سے ھوا
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ھے
ھوا کی زد میں جلانے ھیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن سر رھگزار کرنا ھے
وہ مسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ھے
مثال شاخ برھنہ خزاں کی رت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ھے
تیرے فراق میں دن کس طرح کٹے اپنے
کہ شغل شب تو ستارے شمار کرنا ھے
چلو یہ عشق ھی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ھمیں روزگار کرنا ھے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ھوں
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ھے
خدا خبر یہ کوئی ضد کہ شوق ھے"محسن"
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ھے
Wednesday, April 27, 2011
...غم کی تلاوت
ترے غم کی تلاوت کر رہے ہیں
ستاروں سے شکایت کر رہے ہیںجنوں کے تجربوں کی نگہداریبہ انداز قراست کر رہے ہیںترے شانوں پہ تابندہ نشاطے بہاروں کی سخاوت کر رہے ہیںنہ دے تہمت ہمیں مدھوشیوں کی
ذرا پی کر عبادت کر رہے ہیںسحر کے بعد بھی شمعیں جلاؤ!کہ پروانے شرارت کر رہے ہیںخدا وندان گلشن ! یہ شگوفےبہاروں سے بغاوت کر رہے ہیںمرتب غم کے افسانوں سے ساغرمسرت کی حکایت کر رہے ہیں
... تری آنکھیں
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ دبوالجھا ھوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کا کل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و کل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی افسانے تری آنکھیں
... انا پرستی
تیری یاد کے نیلگوں سمندر میں
ہمارے پیار کا بے نشاں جزیرہ ہے
جہاں ہمارے خواب، خوابوں کی طرح ملتے ہیں
تیرے حسن کے گلاب جہاں کھلتے ہیں
تیری آنکھیں میری آنکھوں سے مل کہ ہنستی ہیں
میرے عشق کو جہاں اشارے ملتے ہیں
ہر طرف بھیگے جذبوں کی مستی ہے
نہ تیری بے رخی ہے
نہ میری انا پرستی ہے
جب واپس آتا ہوں حقیقت کے ساحل کی طرف
تپتی ہوئی ریت پر اجڑی ہوئی بستی کی طرف
وہ ہی تیری بے رخی ہے
وہ ہی میری انا پرستی ہے
... پیار آنے لگا رسوائی پر
کیسے چھوڑیں اسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر
اس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رسوائی پر
...
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر
سطح کو دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر
ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا
بات ہوگی مرے ہرجائی پر
خود کو خوشبو کے حوالے کردیں
پھول کی طرزِ پذیرائی پر
Tuesday, April 26, 2011
... خامشی
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے
...پانے کی آرزو
اس سے بچھڑ کے دل کا ہوا ہے عجیب حال
پانے کی آرزو گئی ۔۔۔۔۔ کھونے کا ڈر گیا
نیلا میرا وجود گھڑی بھر میں کر گیا
وہ زہر کی طرح مرے دل میں اتر گیا
... دل بو دیں
چلو ساری زمینیں کھودیں
اور اس میں اپنے دل بو دیں
کریں سیراب اس کو آرزؤں کے پسینے سے
کہ اس بے رنگ جینے سے
نہ میں خوش ہوں نہ تم خوش ہو
.... دردِدل
ایک دیِا میں جلا کے بیٹھا ہوں
دردِدل میں بسا کے بیٹھا ہوں
کوئی مونس نہ میرا ساتھی ہے
میں تو خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں
نہ ہوئی میرے غم کی شنوائی
سارے آنسؤ بہا کے بیٹھا ہوں
لفظ میری دُعا نہیں بنتے
ہاتھ دونوں اٹھا کے بیٹھا ہوں
موت آئی ہے، وہ نہیں آیا
کب سے اُس کو بلا کے بیٹھا ہوں
وہ بھی شاید اِدھر نکل آئے
ایک دیا میں جلا کے بیٹھا ہوں
اُس سے ملنے کی آج بھی ناصر
دل میں حسرت جگا کے بیٹھا ہوں
... سکوت غم
سکوت غم میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی دوا اداسی کی
امور دل میں کسی تیسرے کا دخل نہین
یھاں فقط تیرے چلتی ہے یا اداسی کی
بہت شرر تھا مین اور ہنستا پھرتا تھا
پھر ایک فقیر نے دی دے دعا اداسی کی
چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکہنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
بہت دنوں ملاقات ہے نہین محسن
کہیں سے خیرخبر لے کے آ اداسی کی
... تو کہاں تھا
جب غم مری دھڑکن مری باتوں سے عیاں تھا ، تو کہاں تھا
جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب ڈھل گئے ہیں سبھی موسم، مرے ہمدم
جب تیرے لئے مرا ہر احساس جواں تھا ، تو کہاں تھا
اب صرف خموشی ہے مقدر کا ستارہ ، مرے یارا
جب لب پہ فقط تیرا فقط تیرا بیاں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب کام دکھا بھی گیا ساون، مرے ساجن
جب چار سو میرے لئے خوشیوں کا سماں تھا، تو کہاں تھا
...محفلِ اعداء
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرضِ تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
سلوکِ یار سے دل ڈوبنے لگا ہے فراز
مگر یہ محفلِ اعداء ہے کیا کیا جائے
....اک شحض
ہم کوئی جگ سے نرالے تو نہیں ہیں لوگو
ہم بھی اسی وقت میں جیتے ہیں جہاں
تتلیاں خواب ہیں اور پھول گلاب ہیں
شہر ہم کو بھی مقدر میں ملا ہے جس میں
...دھڑکنیں بند اور شہر جیسے ہو کا عالم
ہم بھی اس گھر کے مکین ہیں کے جہاں
وقت کے کاٹتے ہی بجھہ جاتی ہے اس عمر کی لو
اس بے اماں گمنام ارادے کی طرح
ہم بھی لوگوں کی طرح ہیں کے ہمیں
دکھ چھپانا بھی ہے اور ہنسنا سر بازار بھی ہے
ہم پے بھی عہد جوانی کا عذاب گزرا ہے
ہم نے بھی دور کسی شہر میں بستے ہوئے
ہنستے ہوئے اک شحض کو چاہا ہے بہت
میں اندھی ہوں۔۔۔۔
میں نے دل کے دروازے پہ لکھا
اندر آنا منع ہے
محبت مسکراتی ہوئی آئی
دل کے دروازے پر قدم رکھا
اور کہنے لگی”معاف کرنا“.میں اندھی ہوں۔۔۔۔
... ہجر
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
...بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
.... دیپ
سرد سا ہاتھ ملانے والا
تو وہی ہے ناں زمانے والا
تم مجھے یاد رکھو گے کیسے
جب خدا بھی ہو بھلانے والا
دکھ کی مزدوری مجھے کرنا ہے
ہے کوئی ہاتھ بٹانے والا
رات آگے نہیں جانے والی
ہجر بھی شور مچانے والا
جانے اب شہر رہے یا نہ رہے
میں تو اک شخص ہوں جانے والا
شاید اک غم ہی فقط ہوتا ہے
عمر بھر ساتھ نبھانے والا
اب زمانہ ہی نہیں ہے فرحت
دیپ سے دیپ جلانے والا
... جرات
دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
...
دیکھا تھا جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون ہے جس سے تیری صورت نہیں ملتی
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
نکلا کرو یہ شمع لئے گھر سے بھی باہر
تنہائی سجانے کو مصیبت نہیں ملتی
... دیمک
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو‘ لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم
...اسمِ عظیم
مِرے رتجگوں کے حساب میں
کوئی ایک نیند کی رات دے
کوئی ایسا اسمِ عظیم ہو
مُجھے تیرے دُکھ سے نجات دے
Monday, April 25, 2011
... گُمان
ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا
شاعر تاجدار عادل
...یادوں کی رفاقت
کیا ضروری ہے کہ ہاتھوں میں تر اہاتھ بھی ہو
چند یادوں کی رفاقت ہی بہت کافی ہے
لوٹ چلتے ہیں اسی پل سے گھروں کی جانب
یہ تھکن اتنی مسافت ہی بہت کافی ہے
شاعر اعتبار ساجد
...تنہا تنہا
یونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا، مری جان میرے قریب آ
میں بھی خستہ دل ہوں تری طرح مری مان میرے قریب آ
میں سمندروں کی ہوا نہیں کہ تجھے دکھائی نہ دے سکوں
کوئی بھولا بسرا خیال ہوں نہ گمان میرے قریب آ
نہ چھپا کہ زخم وفا ہے کیا، تری آرزؤں کی کتھا ہے کیا
تری چارہ گر نہ یہ زندگی نہ جہان میرے قریب آ
تجھے ایسے ویسوں کی دوستی نے بہت خراب و خجل کیا
کسی جھوٹ کی یہ نقاب رُخ پہ نہ تان میرے قریب آ
جو نکل سکے تو نکال لے کوئی وقت اپنے لئے کبھی
مرے پاس بیٹھ کے رو تو لے کسی آن میرے قریب آ
نہ مکالمہ ہو نہ گفتگو فقط اتنا ہو کہ نہ میں نہ تو
ملیں صرف اپنے جلے ہوئے دل و جان میرے قریب آ
شاعر اعتبار ساجد
... حسیں لوگ
یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا
صورت شمع تیرے سامنے روشن ہیں جو پھول
ان کی کرنوں میں نہا, ذوق سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا
اتنا کم ظرف نہ بن, اس کے بھی سینے میں ہے دل
اس کا احساس بھی رکھ, اپنی ہی راحت پہ نہ جا
دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر میری جانب ہر روز
روزن در ہوں میری دید کی حیرت پہ نہ جا
تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی
بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک, میری ظاہری حالت پہ نہ جا
شاعر اعتبار ساجد
...اضطراب
یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اس عذاب میں ہیں
اسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دھن میں ہیں اب تک اسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سوکھے ہوئے پھول اس کتاب میں ہیں
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اک شہرِ زیر آب میں ہیں
...بددعا
تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خدا مجھے یہ تحمل یہ حوصلہ بھی نہ دے
مرے بیان صفائی کے درمیاں مت بول
سنے بغیر مجھے اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے ترے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامن دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے
یہ دن بھی آئیں گے ایسا کبھی نہ سوچا تھا
وہ مجھ کو دیکھ بھی لے اور مسکرا بھی نہ دے
یہ رنجشیں تو محبت کے پھول ہیں ساجد
تعلقات کو ا س بات پر گنوا بھی نہ دے
...افسانے جدائی کے
معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
بچھڑے گا تو پھر یاد بھی آئے گا بہت وہ
اب جس کی رفاقت میں بہت خندہ بہ لب ہیں
اس بار ملے گا تو رلائے گا بہت وہ
چھوڑ آئے گا تعبیر کے صحرا میں اکیلا
ہر چند ہمیں خواب دکھائے گا بہت وہ
وہ موج ہوا بھی ہے ذرا سوچ کے ملنا
امید کی شمعیں تو جلائے گا بہت وہ
ہونٹوں سے نہ بولے گا پر آنکھوں کی زبانی
افسانے جدائی کے سنائے گا بہت وہ
شاعر اعتبار ساجد
...خود کو بھول گیا
پھرا ہوں سارے زمانے میں در بدر کیسا
میں تیرے بعد بھی زندہ رہا مگر کیسا
وہ جا نتا تھا کہ کچھ روز وہ نہیں تھا تو میں
پکا رتا رہا اُس کو ادھر اُدھر کیسا
نہ اعتبار نہ آ سودگی نہ قرب تیرا
فقط تکلف دیوار و در ہے گھر کیسا
میں جس کے ہجر میں رویا ہوں پاگلوں کی طرح
وہ کل ملا تو ہنسا میرے حال پر کیسا
عزیز تر تھی جسے نیند شام وصل میں بھی
وہ تیرے ہجر میں جاگ ا ہے عمر بھر کیسا
بس ایک شخص کی خاطر بس ایک دل کے لئے
وطن کو تج دیا دیوانگی ، میں گھر کیسا
کہاں کی دوستی ، کیسا فراق ، کون فراز
میں خود کو بھول گیا تجھ کو بھول کر کیسا
Subscribe to:
Posts (Atom)