Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, August 31, 2011

رات کا سمندر ہے


رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی

بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی

گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی

نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی

چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے

آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے

جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر

کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں

سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے

چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے

خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے

عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی

اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے

شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے

رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے

رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں

زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے

وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں

حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے

یہ معجزہ


یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی
وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ
یہ سلسہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض
مگر پیچ بہت ابتدا کا لگتا ہے

اے محبت ! تیری قسمت


اے محبت !
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے دانا
جو کمالات کیا کرتے تھے
خشک مٹی کو امارات کیا کرتے تھے
اے محبت
یہ تیرا بخت
کہ بن مول ملے ہم سے انمول
جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور
جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے
اے محبت میری
ہم تیرے مجرم ٹھہرے ،
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم جو سو باتوں کی ایک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم بگڑتے تو کئی کام بنا کرتے تھے
اور
اب تیری سخاوت کے گھنےسائے میں
خلقتِ شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے
مقسوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت
ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھہ کو آئندہ بھی عاشقوں کا خون پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے ، تجھ کو مگر جینا ہے
اے محبت
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے انمول
ہم سے دانا۔۔۔۔۔
اے محبت

مجھے لکھنا اگر آتا


مجھے لکھنا اگر آتا
تو لکھتا تيري آنکھوں پر
تيري آنکھوں کي پلکوں‌پر
تيري آنکھوں کي شوخي پر
تيرے ہونٹوں‌کي جنبش پر
کہ جب تم بات کرتي ہو
تو گويا پھول جھڑتے ہيں‌
تري لہراتي زلفوں‌ پر
کہ جب تم اپنے بالوں‌ ميں‌
کوئي گجرا سجاتي ہو
فضائيں‌گنگناتي ہيں‌
ميں‌اپنے دل کے جذبوں کو
تمہارے نام کرتا ہوں
مجھے لکھنا اگر آتا
تو لکھتا تيري آنکھوں پر
مگر ميں‌کيا کروں ’’جانا‘‘
مجھے لکھنا نہيں‌ آتا

خراج ہے يہ محبتوں کا


خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
عذاب لمحوں کي وحشتوں کا
لہو ميں نکھري حکائتوں کا
بند سے لپٹي شکائتوں کا
رگوں ميں اُتري، اُتر کے بکھري، بکھر کے پھيلي بغاوتوں کا
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
انہيں بھي ديکھو جو سر پہ مٹي کو اوڑھتي ہيں
جو اپني حُرمت کي کرچيوں کو جگر کے پوروں سے چُن رہي ہيں
جو خواب پلکوں سے بُن رہي ہيں
پھر ان کو خود ہي اُدھيڑتي ہيں
بچي کُھچي سي جو اپني سانسيں سميٹتي ہيں
سميٹ کر خود بکھيرتي ہيں
کوئي تو ان کا جہاں ميں ہوگا، مگر کہاں ہے؟
پنہ ميں لے لے جو ان کو اپني، وہ گھر کہاں ہے؟
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
فلک پہ اُگتا ہوا يہ سورج گواہي دے گا
ہوائيں روتي ہيں سُن کے ماؤں ‌کے بين ہر پل
جو کوکتي ہيں، جو ہُوکتي ہيں
سسک سسک کر جو جي رہي ہيں
جو اپنے بيٹوں کي رکھ کے لاشيں
زميں پہ ديوار چُن رہي‌ ہيں
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
مگر وہ پل دور اب نہيں ہے، ہميں يقيں ہے
جہاں ميں چاروں ہي اور کرنوں کا راج ہوگا
مٹے ہوؤن کے، لُٹے ہوؤں کے سروں پہ خوشيوں کا تاج ہوگا
نقاب اُترے کا ديکھ لينا
جو بھيڑ لگتے تھے، بھيڑيے ہيں
اور اُن کے ابرو کے اک اشارے پہ موت رقصاں تھي،
چاروں جانب
اور آستيوں ميں ان کے خنجر چُھپے ہوئے تھے
سمجھ لو يومِ حساب ان کا قريب ہے اب
نقاب اُترے گا ديکھ لينا

مرے ساتھي


مرے ساتھي
مري آنکھيں، مري سوچيں، مرا تن من
مرا سب کچھ سفر ميں ہے
اسي دن سے کہ جب ہم پر
جدائي کا سمے گزرا
سنو جاناں, سنو جاناں
تمہيں تو ياد ہي ہو گا
ميں ايسا چاہتا کب تھا مگر پھر بھي
تمہيں جب چھوڑ کر جانا پڑا مجھ کو
تمہارے گال پر ميں نے جو منظر آخري ديکھا
اذيت ناک منظر تھا
تمہيں بھي ياد ہو شايد
بچھڑتے وقت کے سورج کي اس دھيمي تمازت سے
ترے دل پر جمي جب برف پگھلي تھي
تو پھر جذبات کے دريا ميں اک سيلاب آيا تھا
کوئي گرداب آيا تھا
سنو جاناں
تو پھر ديکھا کہ اس سيلاب کي اک موج
تيري آنکھ کے ساحل سے ٹکرا کر
تري پلکوں کے رستے سے ترے رخسار پر آ کر
کوئي گمنام منزل ڈھونڈنے لمبے سفر ميں تھي
مگر ميري نظر ميں تھي
سنو جاناں! يقيں جانو
کہ اب بھي رات کو اکثر
ترے آنسو کي وہ لمبي مسافت
ياد آئے تو
مجھے بے چين رکھتي ہے
مجھے شب بھر جگاتي ہے
مجھے پاگل بناتي ہے

سنو لڑکي

سنو لڑکي!
جدا ہونے سے پہلے
سوچ لينا کہ يہ
جدائي عذاب بن جاتي ہے
رگوں ميں زہر بن کر دوڑتي ہے
ملنا بس ميں نہيں ہوتا
جدا ہوئے تو
ملنے کي آس باقي نہيں رہتي
زندگي پھر زندگي نہيں رہتي

چلو ايسا کرتے ہيں
بچھڑ جاتے ہيں
بچھڑتے ہوئے ايک اميد باقي رہتي ہے
ملنے کا امکان ہوتا ہے
کسي موڑ پہ
اچانک کہيں سامنے آنے پر
زندگي شادمان ہوتي ہے

چلو پھر ايسا ہي کرتے ہيں
جدائي کے سمے سے بچنے کے ليے
اک بار بچھڑ کے ديکھتے ہيں

Wednesday, August 24, 2011

میرے خواب میرے سپنے میرے تک ہیں

میرے خواب میرے سپنے میرے تک ہیں
میرے بعد انہیں یاد کرے گا کون
میری چاہت بن جائے گی افسانہ
میری محبت کو یاد کرے گا کون
میرے تک ہیں یہ تمام سندر نظارے
میرے بعد ان کو آباد کرے گا کون
میری کہانیاں بکھڑئیں گی راہوں پہ
میری خطاوٴں کو شمار کرے گا زمانہ
میری وفاوٴں کو یاد کرے گا کون
جو گزارے قے ہم نے زمانے مل کہ
اُن زمانوں کو یاد کرے گا کون
میرے آئیں میرے ساتھ ہو جائیں گی دفن
میرے اِشکوں کو یاد کرے گا کون
اک تم سے ہے زندہ یہ چاہت میری
تم ہی نہ ہو گے تو یاد کرے گا کون
آ کہ اس ساتھ کو دیا گار بنا لئیں
کل کیہ پتہ اِس یاد کو یاد کرے گا کون

اتنی چاہت ہے کوئی گلہ نہیں


اتنی چاہت ہے کوئی گلہ نہیں
اپنی چاہت سے کوئی گلا نہیں تھا
تو سامنے تھا مگر میرہ نہیں تھا
ایسے جدا ہو جائیں گے ہم دونوں
میں نے کبھی سوچا نہیں تھا
اب تو بے چین سا رہتا ہوں میں
جیسا ہوں اب کبھی ایسا نہیں تھا
تو خفا ہوا تو لٹ گیا جہاں میرہ
تجھے جیسے چاہا کسی کو چاہا نہیں تھا
سرشاد تھا دل تیرے آنے سے پہلے
ٹوٹ کہ کبھی ایسے بکھڑا نہیں تھا
ڈھرکن کسی کے نام پہ ڈھرکتی نہ تھی
دل پہ کسی کا پہرہ نہیں تھا
ٹوٹا تو ٹوٹ کر بکھڑ گیاوہ
آئینہ جس میں میرا چہرہ نہیں تھا
تیری جھکی نظروں کو دیکھا تو گماں ہوا
تو نے جیسے کبھی دیکھا نہیں تھا
اُسی اک شخص کو چاہا عمر بھر کے لئے
جو دل کے گھر میں کبھی ٹھہرا نہیں تھا

رات ساری جاگتے ہوئے گزری


رات ساری جاگتے ہوئے گزری
شب تاریخک میں شمع جلاتے ہوئے گزری
اپنی ناکامیوں پہ افسوس کرتے ہوئے
اکھیوں سے اشک بہاتے ہوئے گزری
غموں سے بھر کہ اس ٹوٹے ہوئے دل کو
دکھوں سے اپنے بہلاتے ہوئے گزری
جس سے منسوب تھا میرے جیون کا ہر پل
اُسی اک بے وفا کو بھلاتے ہوئے گزری
ہر لمحہ قیاتمت کی مانند ٹھہرا
ہر گھڑی من کو تڑپاتے ہوئے گزری
وہ بھول گیا تو بھی بھول جا اُس کو
یہی اک بات دل کو سمجھاتے ہوئے گزری
بھول گیا تھا میں یاروں کب کا جیسے کل
ہوا بھی اُسی گیت کو گہنگناتے ہوئے گزری
اندھیروں نے بھی اپنی داستان سنائی مجھ کو
روشنی بھی اپنی کہانی سناتے ہوئے گزری
نفرت اور محبت کی کشمکش میں یہ زندگی
کچھ اُوتے ہوئے گزری کچھ مسکراتے ہوئے گزری

یوں تو اجنبی لگتا ہے وہ مگر

یوں تو اجنبی لگتا ہے وہ مگر
پاس پھر بھی دل کے رہتا ہے وہ
میں اُس سے جدا ہو کہ بھول جاوٴں گی اُسکو
معلوم نہیں کیوں ایسا کہتا ہے وہ
اُسی دل کو دُکھ دیتا ہے کیوں
جس میں ڈھرکن کی مانند بہتا ہے وہ
میں بھی اُسی عشق کی آگ میں جلتی ہوں
جس آگ میں شائد جلتا ہے وہ
زندگی پیار کی طرح خوبصورت ہے
یہی کہتا ہے جب بھی ملتا ہے وہ
اُس کی ہر بات دل کو چھو جاتی ہے
اس دنیا سے سب سے جدا ہے وہ
وقت تھم جاتا ہے جب بھی راتوں کو
خوابوں میں مجھے ملنے آتا ہے وہ
عجب خوشبو پھیلی ہے دل کے گلشن میں
پھول بن کر جب سے کھلا ہے وہ

چہرے

چہرے
خاموش رہتی ہیں آنکھیں اکثر
سب کچھ کر دیتے ہیں بیاں چہرے
یہی ہم نے بھی دیکھے ہیں بہت
کچھ انجاں تو کچھ بدگماں چہرے
کچھ دیوانے ہو جاتے ہیں پیار میں خود
تو کچھ کرتے ہیں پایر نادراں چہرے
کچھ پہ سے ظاہر ہوتی ہے غم داستان تو
کچھ بن کے رہتے ہیں حسیں سماں چہرے
نفرتوں کی اس پھیلی دنیا میں
ہو جاتے ہیں کئی خدا چہرے
کچھ ملنے کے بعد بھول سے جاتے ہیں اور
کچھ بن کے رہے جاتے ہیں اپنی جاں چہرے

وفا کر کے بھی میں بے وفا نکلا


وفا کر کے بھی میں بے وفا نکلا
زندگی کے اس سفر پر میں تنہا نکلا
کچھ دور تک تو سایہ میرا
اور پھر وہ بھی بے وفا نکلا
زندگی کی اس راہ میں
کوئی بھی تو نہ تھا ہم سفر میرا
مانتا تھا جس کو زندگی
وہ ہی بے وفا نکلا
کس سے کروں شکوہ اور کیسے کروں
بس اس ویراں آنکھ سے ایک قطرہ نکلا
پیار کہوں یا کہوں خود فریبی اپنی
جس نے چاہا مجھ ا’سی کو الودا کہ نکلا
فیصی تو توکرتا تھا بڑا مان اپنے وعدوں پہ
مگر افسوس تو بھی ا ن جیسا نکلا

Tuesday, August 23, 2011

محبت ایک دیمک ہے


محبت ایک دیمک ہے
جو کھا جاتی ہے سب کچھ یوں
کہ جیسے شبِ سِیہ کوئی
گناہوں کو نِگل جائے
یا جوں دنیا کے اندھے لوگ
دنیا کو ڈبوتے ہیں
دکھوں کا بیج بوتے ہیں
محبت ایک دیمک ہے
کہ جس دل میں اتر جائے
اسے تو خار دیتی ہے
کسی صحرا میں لے جا کر
پیاسا مار دیتی ہے
خبر اس کی نہیں ہوتی
کہ کب یہ گھیر لے کس کو
اسے نہ زندگی سمجھو
سفر دشوار ہے اس کا
سرابِ زندگی سمجھو
محبت ایک دیمک ہے
مجھے بھی یہ لگی تھی جب
اسے دل میں بسایا تھا
حیاتِ جاوِداں سمجھا
اسے اپنا بنایا تھا
کہ اب تو یوں یہ جیتی ہے
مجھے مردہ بنا کر بس
جگر کا خون پیتی ہے
جگر کا خون پیتی ہے

کٹھن سفر ہے

واپسی کی تمام راہیں
کُھلی ہیں اب بھی تمہاری خاطر
یہی ہے بہتر تمہارے حق میں
پلٹ ہی جاؤ
کہ راہیں میری، اجاڑ راہیں
کہ شامیں میری، ویران شامیں
کہ چاروں جانب ہے گُھپ اندھیرا
نہیں کہیں پہ چمکتا سورج
نہ ہے سویرا
ہے چاروں جانب فصیل ایسی
کہ جس کو عبور کرنا
تمہارے بس میں، نہ اپنے بس میں
پلٹ ہی جاؤ
کہ میری راہوں میں منزلوں کا نشاں نہیں ہے
فقط سفر ہے
کٹھن سفر ہے

ہمیشہ رُوٹھ جاتے ہو


کوئی بھی رُت ہو، منظر ہو
ہمیشہ آزماتے ہو
جہاں جلدی پہنچنا ہو
وہاں تم دیر کرتے ہو
شکایت گر کروں تم سے
وہیں پر ٹوک دیتے ہو
مجھے پہلے پہنچنے کا
ہمیشہ دوش دیتے ہو
یونہی اکثر ستاتے ہو
بہانے سو بناتے ہو
جہاں مجھ کو منانا ہو
وہاں خود رُوٹھ جاتے ہو
ہمیشہ دیر کرتے ہو
ہمیشہ رُوٹھ جاتے ہو

وہی ہوا ناں


وہی ہوا ناں
کہا نہیں تھا کہ عہدِ الفت، سمجھ کے باندھو
نبھا سکو گے؟
مجھے سمے کی تمازتوں سے
بچا سکو گے؟
بہت کہا تھا
صباحتوں میں بہل نہ جانا
مجھے گرا کے سنبھل نہ جانا
بدلتی رُت میں بدل نہ جانا
بہت کہا تھا
بہل گئے ناں
کہا نہیں تھا
سنبھل گئے ناں
وہی ہوا ناں
بدل گئے ناں

یہ ہجر رتوں کے ساتھی ہیں


ہجر رتوں کے ساتھی
عمر کی جھولی میں جیون نے
دیکھوں کیا کیا ڈالا ہے
کچھ وصل کے مٹھی بھر لمحے
کچھ ہجرتوں کی تنہائی
ملن کی اک انمول گھڑی
کچھ مایوسی اور رسوائی
ایک محبت یکطرفہ
اور کچھ بے چین سی راتیں ہیں
دو باتیں ان کہی ہوئی
اور جھولی بھر بھر یادیں ہیں
اب انکے ساتھ ہی جینے ہیں
جو دن دنیا میں باقی ہیں
ان تحفوں کا نہ مول کوئی
یہ ہجر رتوں کے ساتھی ہیں

فطرت


محبت ایسی کشتی ہے
جو ساحل پر نہیں آتی
اِسے منجدھار میں رہنا
ہمیشہ راس آتا ہے

خلیل اللہ فاروقی

میری سنگت میں مت بیٹھو


میری سنگت میں مت بیٹھو
میں تنہائی پہنتا ہوں
اُداسی کے اُجاڑ آنگن میں چُنتا ہوں
میں اپنی ذات میں اُجڑے ہوئے گاؤں کا میلہ ہوں
میرے یارو
تمہارے ساتھ رہ کر بھی، اکیلا ہوں
میری سنگت میں مت بیٹھو
تمہیں تو خود سنورنا ہے
تمہاری خواہشوں کے بام و در پہ
روشنی کے پھول کھِلنا ہیں
تمہیں لکھنا ہے، اپنی سانس کی گرمی سے
نیندوں کا سفرنامہ
میری سنگت میں مت بیٹھو
کہ میں پتھر کا محبص ہوں
کہ میں محرومیوں کے شہر کا باسی
میری قسمت اُداسی، کم لِباسی، ناشناسی ہے
میری سنگت میں مت بیٹھو
مجھے ملنے سے کتراؤ
خود اپنے دل کو سمجھاؤ
میرے نزدیک مت آؤ
میرے دل میں اندھیرا ہے
اندھیرا صرف میرا ہے

ہجر کی صبح


ہجر کی صبح کے سورج کی اداسی نہ پوچھ
جتنی کرنیں ھیں وہ اشکوں کی طرح پھوٹتی ھیں

تجھ سے پہلے بھی کئی زخم تھے سینے میں مگر
اب کے وہ درد ھے دل میں کہ رگیں ٹوٹتی ھیں

رات پھر اشک رھے دامن مثرگاں سے ادھر
کشتیاں شب کو کناروں سے کہاں چھوٹتی ھیں

گاؤں کے تنہا اندھیروں کی طرف لوٹ چلو
شہر کی روشنیاں دل کا سکوں لوٹتی ھیں


Tuesday, August 16, 2011

موسمِ ہجر کی شامِ تنہائی میں

شامِ تنہائی میں
اب بھی شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے
آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے
خواب بُنتا پھرے
کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے
کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے
کیا ہُوا جانِ جاں
کب سے سوئی نہیں
اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں
اُب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں
اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں
کون بے چین ہو
کون بےتاب ہو
موسمِ ہجر کی شامِ تنہائی میں
آبلہ پائی میں
کون ہو ہم سفر, گرد رہگزر
کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے ویران و برباد صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتی ہوں کہ اَب
ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں

میرے خواب ميری کہانیاں


تيری آرزوں کے دوش پر
تيری کيفِيت کے جام میں
میں جو کِتنی صديوں سے قید ہوں
تيرے نقش میں تيرے نام میں
میرے زاِئچے میرے راستے
میرے ليکھ کی یہ نِشانِياں
تيری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوں کی قِطار میں
کبھی پتھروں کے حِصار میں
کبھی دشتِ ہجر کی رات میں
کبھی بدنصيبی کی گھاٹ میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تُن سُلگ کے پگھل گئے
تيری الفتوں کے قیام میں
تيرے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صليب ہے
تيری کائنات کی رات میں
تيرے اژدھام کی شام میں
تُجھے کیا خبر تُجھے کیا پتا

میرے خواب ميری کہانیاں
میرے بے خبر تُجھے کیا پتا-

تو میری روح کا مسکن


تو میری روح کا مسکن میرا حاصل اے دوست
تو میرا شوق و جنوں تو میرا دیوانہ پن
تو میرا قصر نفس تو ہی تو بیگانہ پن
تو میری روح کے ہر تار میں موتی کی طرح
تو میرے ذہن کے ادرک میں صوتی کی طرح
تو میرے جسم کا حصّہ کہ اگر چہ کچھ دور
تو میری عقل کا ہالا میری تفہیم کا نور
تیرا انداز تکلم میری تسکین جاں
تیرے چہرے پہ تبسم میرے دل کا ارماں
تیری آنکھوں کے دریچے میں اگر جا پاؤں
کتنی زخمی ہے میری روح یہ سمجھا پاؤں
کتنا آلودہ میرا ذہن ہے کتنا بسمل
کتنی افسردہ میری روح ہے کتنی گھائل
کتنے ہیں کرب چھپے میری ہنسی کے پیچھے
کتنے طوفان ہیں رکے میری خودی کے پیچھے
اک دو پل کی رفاقت ہی ہے سالوں کا سفر
خاک ہو جاؤں بھی تو دے مجھے نفرت کا زہر
تیری یادوں کا کفن اوڑھ کے بس سو جاؤں
تیری دنیا سے بہت دور کہیں کھو جاؤں
دور اتنا میں چلا جاؤں کے شاید کوئی

میری یادوں کو بھی چھو پاۓ نہ شاید کوئی

کچھ کہنا تھا اُسے بھی


کچھ کہنا تھا اُسے بھی
اور مجھے بھی
اس نے چاہا میں کُچھ کہوں
میری یہ ضِد بات وہ کرے
یہی سوچتے سوچتے زمانے بیت گئے
نہ اس کی انا ٹوٹی نہ میری ضِد
اس کی انا فصیل تھی
تو میری ضِد چٹان
انا اور ضِد کے اِسی تضاد میں
سفرِزندگی یونہی رواں رہا
وقت کٹتا رہا
درد بڑھتا رہا
اور سفر اختتام کو پہنچا
اختتامِ سفر یہ رہا
میری آنکھوں میں ہلکی سی نمی
اور شاید اسکی زندگی میں تھوڑی سی کمی
اس کی انا شکست خوردہ
میری ضِد ریزہ ریزہ۔۔۔۔

Reply in 2 line poetry....
Meri Raag'on may tha Mashraqi tehzeeb rawan....
Us nay na janay kyoon? Mujhay buzdil samajh lia...

ناکام بھی دیکھو گے؟

ناکام بھی دیکھو گے؟
آغاز سے واقف ہو
انجام بھی دیکھو گے

رنگینئ دنیا سے
مایوس سا ہو جانا
دکھتا ہوا دل لے کر
تنہائی میں کھو جانا

ترسی ہوئی نظروں کو
حسرت سے جھکا لینا
فریاد کے ٹکڑوں کو
آہوں میں چھپا لینا

راتوں کی خموشی میں
چھپ کر کبھی رو لینا
مجبور جوانی کے
ملبوس کو دھولینا

جذبات کی وسعت کو
سجدوں سے بسا لینا
بھولی ہوئی یادوں کو
سینے سے لگا لینا

جنگ

مرے اندربہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
میں نہ چاہوں مگر پھر بھی تمہاری سوچ رہتی ہے
ہر اک موسم کی دستک سے تمہارا عکس بنتا ہے
کبھی بارش تمہارے شبنمی لہجے میں ڈھلتی ہے
کبھی سرما کی یہ راتیں
تمہارے سرد ہاتھوں کا دہکتا لمس لگتی ہیں
کبھی پت جھڑ
تمہارے پاؤں سے روندے ہوئے پتوں کی آوازیں سناتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی موسم گلابوں کا!
تمہاری مسکراہٹ کے سبھی منظر جگاتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی پلکیں تمہاری، دھوپ اوڑھے جسم و جاں پر شام کرتی ہیں
کبھی آنکھیں، مرے لکھے ہوئے مصرعوں کو اپنے نام کرتی ہیں
میں خوش ہوں یا اُداسی کے کسی موسم سے لپٹا ہوں
کوئی محفل ہو تنہائی میں یا محفل میں تنہا ہوں
یا پھر اپنی لگائی آگ میں بجھ بجھ کے جلتا ہوں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مرے اندربہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
اوراِس بے اختیاری میں
مرے جذبے، مرے الفاظ مجھ سے روٹھ جاتے ہیں
میں کچھ بھی کہہ نہیں سکتا، میں کچھ بھی لکھ نہیں سکتا
اُداسی اوڑھ لیتا ہوں
اوران لمحوں کی مٹھی میں
تمہاری یاد کے جگنو کہیں جب جگمگاتے ہیں
یا بیتے وقت کے سائے
مری بے خواب آنکھوں میں کئی دیپک جلاتے ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مجھے تم کو بتانا ہے
کہ رُت بدلے تو پنچھی بھی گھروں کو لوٹ آتے ہیں
سنو جاناں، چلے آؤ
تمہیں موسم بلاتے ہیں

میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں


جب بھی رات کو گھر آتا ہوں
اپنے دروازے پہ دستک دیتے لمحے
اکثر میری سوچ یہ مجھ سے کہتی ہے
آج تُو دروازہ کھولے گی
مجھ کو دیکھ کے مسکائے گی
میرا ماتھا چومے گی
شرمائے گی
گھر میں داخل ہو کر میں بھی کوئی شرارت کر دوں گا
تو خود میں سمٹ کر رہ جائے گی
میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں
کیا کیا سوچا کرتا ہوں
میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں

تمہیں جاناں اجازت ہے

تمہیں جاناں اجازت ہے
کہ ان تاریک راہوں پر
تھکن سی خود میں پاؤ تو
اندھیروں سے کبھی دل ڈول جائے
تھک سی جاؤ تو
مرے جلتے ہوئے لمحوں
مرے کنگال ہاتھوں سے چھڑا کے اپنے ہاتھوں کو
فضا کی نغمگی سے تم نئے گیتوں کو چن لینا
حسیں پلکوں کی نوکوں پر نئے کچھ خوب بن لینا
کوئی گر پوچھ لے میرا تو اس سے ذکر مت کرنا
مرے جیون کی جلتی دوپہر سے بے غرض ہو کر
تم اپنی چاندنی راتوں میں جگنو پالتی رہنا
مری تنہائیوں کی وحشتوں کی فکر مت کرنا
تمہیں اس کی اجازت ہے
مرے سب خط جلا دینا
مرے تحفوں کو دریا میں بہانا یا دبا دینا
مری ہر یاد کو دل سے کھرچنا اور مٹا دینا
تمہیں بالکل اجازت ہے
کہ جب چاہو بھلا دینا
مگر اتنی گذارش ہے
اگر ایسا نہ ہو جاناں
تو اچھا ہے

اب تو لوٹ کے آجاؤ ناں


تم نے کہا تھا
پہلی بارش کے پڑتے ہی
لوٹ آؤ گے
ہم اور تم مل کر بھیگیں گے
دیکھو جاناں
کتنی پھواریں بیت چکی ہیں
ساون پھر سے لوٹ آیا ہے
برسوں پہلے کیا تھا تم نے
مجھ سے عہد
نبھا جاؤ ناں
جاناں! لوٹ کے آجاؤ ناں
اب تو لوٹ کے آجاؤ ناں

احتیاط

سوتے میں بھی
چہرے کو آنچل سے چُھپائے رہتی ہوں
ڈرلگتا ہے
پلکوں کی ہلکی سی لرزش
ہونٹوں کی موہوم سی جنبش
گالوں پر وہ رہ رہ کے اُترنے والی دھنک
لہومیں چاند رچاتی اِس ننھی سی خوشی کا نام نہ لے لے
نیند میں آئی ہُوئی مُسکان
کِسی سے دل کی بات نہ کہہ دے

اعتراف


جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصور کے کِسی لمحے میں
تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے!

کشف


ہونٹ بے بات ہنسے
زُلف بے وجہ کُھلی
خواب دِکھلا کے مُجھے
نیند کِس سمت چلی
خوشبو لہرائی،مرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سُنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں ترے نام کا تارہ چمکا!


کانچ کی سُرخ چوڑی


کانچ کی سُرخ چوڑی
مرے ہاتھ میں
آج ایسے کھنکنے لگی
جیسے کل رات،شبنم سے لکھی ہوئی
ترے ہاتھ کی شوخیوں کو
ہَواؤں نے سُر دے دیا ہو!

میں کچی نیند میں ہوں

میں کچی نیند میں ہوں
اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اُترتی
چاندنی کی چاپ سُنتی ہوں
گُماں ہے
آج بھی شاید
مرے ماتھے پہ تیرے لب ،ستارے ثبت کرتے ہیں!

عکـــــس


اِســـــی اِک آئینے کا عکـــــس ہے
مـــــیری محـــــبت بھی
تمـــــھارے چاہنے والوں کی حـــــیرت بھی
یہ حـــــیرت آئینے کے ٹُـــــوٹنے تک ہے
ہمـــــارے ہاتھ سے ســـــانسوں کی ڈوری چُھـــــوٹنے تک ہے

” لکیریں جھوٹ بولتیں ہیں “


جب وہ میرا نام
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
تلاش کر کے تھک گئی
تو دھیرے سے سر جھکایا
اور مسکرا کے کہا
” لکیریں جھوٹ بولتیں ہیں “

جـــــدائـــــی


جـــــدائـــــی
بے بســـــی ،،،تنہـــــائی
کســـــی کـــــی آس
خــــــــــواہش
عشــــــــــق ،،، لا حاصـــــل
یہ ســـــب کیا ہے ،،؟
جنـــــوں کـــــے راســـــتے
اور ،،
بـــــے نشـــــاں مـــــنزل


Monday, August 15, 2011

رات کا سمندر ہے


رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی

بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی

گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی

نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی

چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے

آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے

جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر

کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں

سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے

چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے

خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے

عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی

اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے

شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے

رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے

رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں

زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے

وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں

حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے

اے محبت !

اے محبت !
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے دانا
جو کمالات کیا کرتے تھے
خشک مٹی کو امارات کیا کرتے تھے
اے محبت
یہ تیرا بخت
کہ بن مول ملے ہم سے انمول
جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور
جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے
اے محبت میری
ہم تیرے مجرم ٹھہرے ،
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم جو سو باتوں کی ایک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم بگڑتے تو کئی کام بنا کرتے تھے
اور
اب تیری سخاوت کے گھنےسائے میں
خلقتِ شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے
مقسوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت
ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھہ کو آئندہ بھی عاشقوں کا خون پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے ، تجھ کو مگر جینا ہے
اے محبت
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے انمول
ہم سے دانا۔۔۔۔۔
اے محبت
__________________

یہ معجزہ


یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی
وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ
یہ سلسہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض
مگر پیچ بہت ابتدا کا لگتا ہے

Friday, August 12, 2011

اُس کو خُوب خبر تھی

زہر میں ڈوبی نوکوں والے
تیر چلائے سارے اُس نے تاریکی میں
لیکن اُس کو خُوب خبر تھی
گھور اندھیری راہوں میں
میں نے آنکھیں رکھ چھوڑی ہیں۔۔۔۔۔

کنگن بیلے کا

کنگن بیلے کا
اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا
اُجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی کلائی
بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا
گہنا پُھولوں کا
پھر جُھک کرہاتھ کرچُوم لیا!
پُھول تو آخر پُھول ہی تھے
مُرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے
(شاخِ صنوبر پر اِک چاند دِمکتا ہے)
پُھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے

اُسے کہنا

اُسے کہنا
ابھی تک دل دھڑکتا ہے
ابھی تک سانس چلتی ہے
ابھی تک یہ مری آنکھیں
سہانے خواب بنتی ہیں
مرے ہونٹوں کی جنبش میں
تمہارا نام رہتا ہے
ابھی بارش کی بوندوں میں
تمہارا پیار باقی ہے
اُسے یہ بھی بتا دینا
ابھی اظہار باقی ہے
ابھی یادوں کے کانٹوں سے
مرا دامن الجھتا ہے
تمہارا پیار سینے میں
کہیں اب بھی دھڑکتا ہے
ہوا اب بھی موافق ہے
ہمارے ساتھ چلتی ہے
اُسے کہنا
جدائی کا ابھی موسم نہیں آیا
محبت کی کہانی میں
کہیں پر غم نہیں آیا
مگر سب کچھ بدلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
کسی کی یاد ڈھلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
نئی صبح نکلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے
اُسے کہنا
وہ جلدی فیصلہ کر لے
نئے رستوں پہ چلنے میں
بھلا کیا دیر لگتی ہے

اب تو لوٹ کے آجاؤ ناں

تم نے کہا تھا
پہلی بارش کے پڑتے ہی
لوٹ آؤ گے
ہم اور تم مل کر بھیگیں گے
دیکھو جاناں
کتنی پھواریں بیت چکی ہیں
ساون پھر سے لوٹ آیا ہے
برسوں پہلے کیا تھا تم نے
مجھ سے عہد
نبھا جاؤ ناں
جاناں! لوٹ کے آجاؤ ناں
اب تو لوٹ کے آجاؤ ناں

تکمیل


وہ کہتی تھی
تم ہنس کر
کوئی بات کرو تو
اپنا اپ
مکمل لگنے لگ جاتا ہے
میں نے بھی محسوس کیا کہ
اس سے باتیں کر کے میں بھی
اور سے اور ہوا جاتا ہوں
اور پھر اک دن
جانے کیسے
مجھ سے باتیں کر کے اپنا آپ مکمل کرنے والی
مجھے ادھورا چھوڑ گئی ہے

اعتراف

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصور کے کِسی لمحے میں
تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے!


Thursday, August 11, 2011

غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا



غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
اشک بہہ بہہ کے مرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تجھ کو تیرے دامن کو بہت یاد کیا
قید میں رکھا ہمیں* صیاد نے کہ کہ کے یہی
ابھی آزاد کیا بس ابھی آزاد کیا
پھر گئیں *نظروں میں *آنسو بھری آنکھیں *اُن کی
جب کبھی غم نے مجھے مائل فریاد کیا
ہائے وہ دل مجھے اس دل پہ ترس آتا ہے
تو نے برباد کیا جس کو نہ آباد کیا
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہر حال خُمار
ناز کر ناز کہ اُس نے تُجھے برباد کیا

ہمارے دل پہ جو زخموں کا باب لکھا ھے

ہمارے دل پہ جو زخموں کا باب لکھا ھے
اسی میں وقت کا سارا حساب لکھا ھے

کچھ اور کام تو ھم سے نا ھو سکا لیکن
تمھارے ہجر کا ایک ایک عذاب لکھا ھے

سلوک نشتروں جیسا نہ کیجیے ہم سے
ہمیشہ آپ کو ہم نے گلاب لکھا ھے

تیرے وجود کو محسوس عمر بھر ھوگا
تیرے لبوں پہ جو ہم نے جواب لکھا ھے

شامِ غم! کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو



شامِ غم! کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یونہی اُس کے جا و بےجا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو

کُچھ قفس کی تیلیوں سے چِھن رہا ہے نُور سا
کُچھ فضا، کُچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جس کی فُرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق
آج اس عیسٰی نفس دم ساز کی باتیں کرو

فراق گورکھپوری

يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے


يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے
محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے
ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
پيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کر
اس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دے
اس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے
رفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کر
خودداري ساحل دے، آزادي دريا دے
بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
سينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دے
احساس عنايت کر آثار مصيبت کا
امروز کي شورش ميں انديشہء فردا دے
ميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے

دل تھا درہم اور برہم رائیگاں


دل تھا درہم اور برہم رائیگاں
تھے تمہاری زلف کے خم رائیگاں

اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب
اپنے خوابوں کا تھا عالم رائیگاں

زندگی بس رائیگانی ہی تو ہے
میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رائیگاں

جون! شاید کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں
ہے دوام ایک وہم اور دم رائیگاں

جون ایلیا

Wednesday, August 10, 2011

تمہاری محبت


محبت کے پہلے
سنہرے سفر میں
مری
یہ دُعا ہے!
کہ تم کو
خوشی کے
ہزاروں جزیرے ملیں
اور مجھ کو
’’تمہاری محبت‘‘

مجھے اک شعر کہنا ہے

اُداسی کے حسیں لمحو!
کہاں ہو تم
کہ میں کب سے
تمہاری راہ میں
خوابوں کے نذرانے لئے بیٹھا
حسیں یادوں
کی جھولی میں
کہیں گُم ہوں
ارے لمحو!
مجھے اِس خواب سے بیدار کرنے کے لئے آئو‘
میری سوچوں کے خاکوں میں
کوئی اک رنگ بھر جائو‘
مجھے اک شعر کہنا ہے

اُس سے کہو


اُس سے کہو!
کی سارے موسم
اک اک کر کے
لوٹ آئے ہیں
اُس سے کہو!
کہ پت جھڑ کے سب
زردی مائل پھول بکھر کر
سوکھ گئے ہیں
فصلِ گُل ہے
شاخوں پر اب پھول کِھلے ہیں
اُس سے کہو!
کہ ساون کی ہر بوند نے دل پر
دستک دی ہے
اُس سے کہو!
کہ گھر آنگن میں
زرد اُداسی
اور مری تنہائی دونوں
ناچ رہی ہیں
گھر سُونا ہے
اُس سے کہو!
کہ لوٹ آئے وہ

زندگی



چار سُو ‘ پھیلی ہوئی
اک بے بسی
اک تیرگی
ناکامیاں
آوارگی
شاید!
یہی ہے زندگی

زندگی


چار سُو ‘ پھیلی ہوئی
اک بے بسی
اک تیرگی
ناکامیاں
آوارگی
شاید!
یہی ہے زندگی

پھیلائو


کل بھی میں تھا
کل بھی میں ہوں
کل سے کل تک
میں ہی میں ہوں

سب خونی ہیں

کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں

ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں

ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں

دُعا


میرے مولا!
جن کو میں نے
ٹوٹ کے چاہا
اُن سے دُکھ ہی دُکھ
پائے ہیں
میرے مولا!
مجھ کو یہ
توفیق عطا کر
کہ میں اُن کو
دُکھ کے بدلے
سکھ ہی سکھ دوں


سندیسہ


اُسے کہنا!
یہاں سب کچھ
تمہاے بِن ادھورا ہے
گئے لمحوں کی یادیں ہیں
عذابِ زندگانی ہے
فراقِ ناگہانی ہے
اُسے کہنا!
کہ لوٹ آئے

نہر کنارے آ جانا


جب چاند ہو اپنے جوبن پر
اور سنگ ترے تنہائی ہو
جب چاروں اَور اُداسی ہو
جب پڑھنے سے گھبرائے دل
اور قابو میں نہ آئے دل
تو نہر کنارے آ جانا

جب یادوں کی گھنگھور گھٹا
تنہائی میں دل پر چھا جائے
آنکھوں سے نیند چلی جائے
جب سانس ذرا سی رُک جائے
تو نہر کنارے آ جانا

دل


ایک عمارت
جس کی اونچی
دیواروں کے
اندر
کئی صدیوں کا
غم پلتا ہے

عالمِ نزع


کبھی جو تم کو
میں یاد آئوں
تو اپنے آنگن
میں بیٹھ کر تم
ہوا سے باتیں
کرو
کہ میں بھی
اِسی ہوا میں
کہیں پہ بیٹھا
اُداس و افسردہ
دشتِ ہستی میں
صرف تم کو ہی
سوچتا ہوں


کیسا لمحہ آن پڑا ہے


کیسا لمحہ آن پڑا ہے
ہنستا گھر ویران پڑا ہے
بستر پر کچھ پھول پڑے ہیں
آنگن میں گلدان پڑا ہے
کرچی کرچی سپنے سارے
دل میں اک ارمان پڑا ہے
لوگ چلے ہیں صحرائوں کو
اور نگر سنسان پڑا ہے
اک جانب اک نظم کے ٹکڑے
اک جانب عنوان پڑا ہے

اب نہيں درد چھپانے کا قرينہ مجھ ميں


اب نہيں درد چھپانے کا قرينہ مجھ ميں
کيا کروں بس گيا ايک شخص انوکھا مجھ ميں

اس کي آنکھيں مجھے مشہور کيے رکھتي ہيں
وہ جو ايک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ ميں

ميرے چہرے پہ اگر قرب کے آثار نہيں
يہ نا سمجھو کہ نہيں کوئي تمنا مجھ ميں

اپني مٹي سے رہي ايسي رفاقت مجھ کو
پھيلتا جاتا ہے ايک ريت کا صحرا مجھ ميں

ڈوب تو جائوں تيري مدھ بھري آنکھوں ميں مگر
لڑکھڑانے کا نہيں حوصلہ اتنا مجھ ميں

مياں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئي بات نہيں
بہتا رہتا ہے تيري ياد کا دريا مجھ ميں

جب سے ايک شخص نے ديکھا ہے محبت سے بقا
پھيلتا جاتا ہے ہر روز اجالا مجھ ميں

بقا بلوچ

Tuesday, August 9, 2011

ٹک آنکھ

ٹک آنکھ ملاتے ھي کيا کام ھمارا
تس پر يہ غضب پوچہتے ھو نام ھمارا

تم نے تو نہيں، خير يہ فرمائيے بارے
پھر کن نے ليا ، راحت و آرام ھمارا

ميں نے جو کہا آئيے مجھ پاس تو بولے
کيوں، کس لئے ، کس واسطے کيا کام ھمارا؟

رکہتے ھيں کہيں پائو تو پڑے ھيں کہيں اور
ساقي تو زرا ہاتھ تو لےتہام ھمارا

ٹک ديکہ ادھر ، غور کر،انصاف يہ ھے واھ
ھر جرم و گنہ غير سے اور نام ھمارا

اے باد سحر محفل احباب ميں کہو
ديکہا ھے جو کچہ حال تہ دام ھمارا

نواب انشاء اللہ خان

انجام محبت

معلوم جو ھوتا ھميں انجام محبت
ليتے نہ کبھي بھول کے ھم نام محبت

ھيں داغ محبت درم و دام محبت
مثردھ روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق

ھر روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق
دو چار اسير قفس دام محبت

مانند کباب آگے پہ گرتے ھيں ھميشہ
دل سوز ترے بستر آرام محبت

کاسہ ميں فلک کے نہ رھے نام کو زھر آب
دہر کہينچے اگر تشنہ لب جام محبت

کي جس سے رھ و سم محبت اسے مارا
پيغام قضا ھے ترا پيغام محبت

نے زھد سے ھے کام نہ زاھد سے کہ ھم تو
ھيں بادھ کش عشق و مئے جام محبت

ايمان کو گرو رکہ کے نہ يوں کفر کو لے مول
کافر نہو گرويدھ اسلام محبت

کہتي تہي وفا کناں نعش پہ مري
سونپا کسے تو نے مجھے ناکام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کي سناں کو
چڑھ سر کے بل سے زينے پہ تا بام محبت

محمد ابراہيم ذوق

آنکھ اس پر


آنکھ اس پر جفا سے لڑتي ھے
جان کشتي قضا سے لڑتي ھے

شعلہ بھڑکے گے کيا بہلا سر بزم
شمع تجہ بن ھوا سے لڑتي ھے

قسمت اس بت سے جا لڑي اپنبي
ديکھو احمق خدا سے لڑتي ھے

صف مثرگان تري خدا کي پناھ
اک بلا ايک بلا سے لڑتي ھے

شور و غل قل يہ کيوں ھے دختر رز
کيا کسي آشنا سے لڑتي ھے

نگہ ناز اس کي عاشق سے
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتي ھے

تيرے بيمار کے سر باليں
موت کيا کيا شفا سے لڑتي ھے

آج کہتے ھو کيا طبعيت کو
عشق ميں ابتدا سے لڑتي ھے

آج دنيا نے چلح کي کس دن
يہ لڑاکا سدا سے لڑتي ھے

تيري شمشير خوں کے چہينٹوں سے
چہينٹے آب بقا سے لڑتي ھے

ديکھو اس چشم مست کي شوخي
جب کسي پارسا سے لڑتي ھے

ذوق دنيا ھے مکر کا ميداں
نگہ اس کي دغا سے لڑتي ھے

محمد ابراہيم ذوق

Saturday, August 6, 2011

ذرہ ذرہ دہر کا زندانئ تقدير ہے


ذرہ ذرہ دہر کا زندانئ تقدير ہے
پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبير ہے
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہيں
انجمِ سيماب پا رفتار پر مجبور ہيں
ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار ميں
سبزہ و گل بھی ہيں مجبور نمو گلزار ميں
نغمۂ بلبل ہو يا آواز خاموش ضمير
ہے اسی زنجير عالم گير ميں ہر شے اسير
آنکھ پر ہوتا ہے جب يہ سر مجبورئ عياں
خشک ہو جاتا ہے دل ميں اشک کا سيل رواں
قلبِ انسانی ميں رقص عيش و غم رہتا نہيں
نغمہ رہ جاتا ہے، لطفِ زير و بم رہتا نہيں
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے
يعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے
گرچہ ميرے باغ ميں شبنم کی شادابی نہيں
آنکھ ميری مايہ دار، اشک عنابی نہيں
جانتا ہوں آہ، ميں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز
ميرے لب پر قصۂ نيرنگئ دوراں نہيں
دل مرا حيراں نہيں، خنداں نہيں، گِرياں نہيں

علامہ اقبال

ظلمت کو ضیاء


ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا

حبیب جالب

Friday, August 5, 2011

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے


زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے

چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے

ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!

کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے

کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے

دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے

یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے

امجد اسلام امجد

نئے سفر میں


نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
جو شخص ساتھ نہیں اُس کا عکس باقی ہے

اُٹھا کے لے گئے دزدانِ شب چراغ تلک
سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے

گھٹا اُٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے

اُلٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
مگر خرابہِ دل میں وہ شخص باقی ہے

فراز آئے ہو تم اب رفیقِ شب کو لیے
کہ دور جام نہ ہنگامِ رقص باقی ہے

دشمنی بھی ہو تو اک معیار ہونا چاہیے

دشمنی بھی ہو تو اک معیار ہونا چاہیے
یاد رکھو! سینے پر ہر وار ہونا چاہیے

دھوپ بونے والا بھی یہ چاہتا ہے دیکھیے
اس کے سر پر پیڑ سایہ دار ہونا چاہیے

یا جنونِ زندگی ہو یا تو شوقِ مرگ ہو
آدمی کو کوئی تو آزار ہونا چاہیے

پیچ و خم میں رہروی کا لطف پنہاں ہوتا ہے
راستوں کو مثلِ زلفِ یار ہونا چاہیے

کتنے یوسف اب بھی ہیں تیار بکنے کے لیے
شرط یہ ہے مصر کا بازار ہونا چاہیے

دیکھ اپنے دل کے دروازے کا تالا کھول دے
خالی کمرے میں کرایہ دار ہونا چاہیے

ایک ٹوٹے دوسرے کی آس باقی رہ سکے
آنکھوں میں تو خوابوں کا انبار ہونا چاہیے

ساقی کی من مانیوں پر نقطہ چینی جو کرے
مے کدے میں ایسا اک مے خوار ہونا چاہیے

مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا

تباہیوں میں بھی بے خانماں نہ ہونے دیا
مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا

کمال یہ نہیں ہم نے کمال گر یہ کیا
کمال یہ ہے زیادہ دھواں نہ ہونے دیا

خلش ہمیشہ رہی ایک آدھ اس دل میں
دکھوں سے خالی کبھی یہ مکاں نہ ہونے دیا

مجھے تھا خوف نشیمن کے پھر اجڑنے کا
صبا کو اس لئے بھی مہرباں نہ ہونے دیا

اک ایسی موج جسے آبشار ہونا تھا
اسے بھی آنکھ سے اک پل رواں نہ ہونے دیا

مُنافقوں کی طرح ہم نے اُس کا ساتھ دیا
وہ بے وفا ہے اُسے یہ گُماں نہ ہونے دیا

خوشی سے کھیل گئے اپنی جان پر عاصم
کسی طرح سے بھی اِس کا زیاں نہ ہونے دیا

احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت

جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تیری شیشہ گری سے
فن سے نظر آتی ہے فنکار کی صورت

صورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

اشکوں نے بیاں کر ہی دیا راز تمنا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

واصف علی واصف

ہم تیرے نہیں تھے، جا نہیں تھے

اتنے بھی تو وہ خفا نہیں تھے
جیسے کبھی آشنا نہیں تھے

مانا کہ بہم کہاں تھے ایسے
پر یوں بھی جدا جدا نہیں تھے

تھی جتنی بساط کی پرستش
تم بھی تو کوئی خدا نہیں تھے

حد ہوتی ہے طنز کی بھی آخر
ہم تیرے نہیں تھے، جا نہیں تھے

کس کس سے نباہتے رفاقت
ہم لوگ کہ بے وفا نہیں تھے

رخصت ہوا وہ تو میں نے دیکھا
پھول اتنے بھی خوشنما نہیں تھے

تھے یوں تو ہم اس کی انجمن میں
کوئی ہمیں دیکھتا ، نہیں تھے

جب اس کو تھا مان خود پہ کیا کیا
تب ہم بھی فراز کیا نہیں تھے

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے


ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے

چاہا بھی اگر ہم نے تیری بزم سے اُٹھنا
محسُوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنّا کے لیے عمر پڑی ہے

کچھ دیر کسی زُلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابل غمِ دوراں کی ابھی دُھوپ کڑی ہے

قابل اجمیری

کُوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں


کُوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی! آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں

تیرے اخلاص کے افسُوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹُوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزا دیتے ہیں

ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جُھکا دیتے ہیں

سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خُوباں کے دروبام صدا دیتے ہیں

ہم نے اس کے لب و رُخسار کو چُھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گُلزار بنا دیتے ہیں

قابل اجمیری

پھول، کلیاں اور غنچوں کو چٹکتے دیکھنا

پھول، کلیاں اور غنچوں کو چٹکتے دیکھنا
زیرِپا کچھ خشک پتے بھی سسکتے دیکھنا

ہے طلوعِ خاورِ ہستی امید افزا ضرور
پر کسی کی عمر کا سورج بھی ڈھلتے دیکھنا

دودھ کی نہریں نکالو گے مگر کب، اس گھڑی
چند بوندوں کے لیے بچے بلکتے دیکھنا

آتشِ ظاہر پہ قابو پانے والے دوستو
شدتِ گریہ سے سینے بھی سلگتے دیکھنا

لطفِ باراں پختہ ایوانوں میں ہے، لیکن حضور
کچا کوٹھا ایک مفلس کا ٹپکتے دیکھنا

ایک رنگین، چند پیسوں کے کھلونے کی طرف
بیوہ کے ننھے سے بچے کو اچھلتے دیکھنا

چشمِ گریاں، دست و پا لرزیدہ بوڑھے کو فراق
اپنے افسر بیٹے کے گھر سے نکلتے دیکھنا

چھوڑا نہ مجھے دل نے


چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا
دل ہے کہ نہیں مانتا، نادان کہیں کا

جائیں تو کہاں جائیں اسی سوچ میں گُم ہیں
خواہش ہے کہیں کی، تو ہے ارمان کہیں کا

ہم ہجر کے ماروں کو کہیں چین کہاں ہے
موسم نہیں جچتا ہمیں اک آن کہیں کا

اُس شوخیِ گُفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا

یہ وصل کی رُت ہے کہ جُدائی کا ہے موسم
یہ گُلشنِ دل ہے کہ بیابان کہیں کا

کر دے نہ اُسے غرق کوئی ندّی کہیں کی
خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا

افتخار راغب

کوئی ایسا شخص ہوا کرے


میرے درد کی جو دوا کرے کوئی ایسا شخص ہوا کرے
وہ جو بے پناہ اداس ہو مگر ہجر کا نا گلہ کرے

میری چاہتیں میری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم
تو وہ سب سے چھپ کے لباس شب میں لپٹ کے آہ و بقا کرے

بڑھے اسکا غم تو قرار کھودے وہ میرے غم کے خیال سے
اٹھے ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دعا کرے

یہ قصص عجیب و غریب ہے یہ محبتوں کا نصیب ہے
مجھے کیسے خود سے جدا کرے، کوئی کچھ بتائے کہ کیا کرے

کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ وہ فراق کے سارے فاصلے
میرے پیچھے آ کے دبے دبے میری آنکھیں موند ہنسا کرے

بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا
وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں، کوئی کچھ تو جا کے پتا کرے

یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے، میں نہیں ہوں پھر میری آرزو
کو جنوں ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے

بھلا کیسے ہی اپنے آپ کو میں رفیق جاں بنا سکوں
کوئی اور ہے تو بتا تو دے،کوئی ہے کہیں تو صدا کرے

اسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی میری خلوتوں کی اداسیاں
وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ، میرا مولا تیرا بھلا کرے

تماشا

ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھا

نھ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھا

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدق جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھا

يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تا لاديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھا

جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھا

ہجر پھر ہجر ہے وصال کہاں


دل بدن کا شریک حال کہاں
ہجر پھر ہجر ہے وصال کہاں

عشق ہے نام انتہاوں کا
اس سمندر میں اعتدال کہاں

ایسا نشہ تو زہر میں بھی نہ تھا
اے غمِ دل تیری مثال کہاں

ہم کو بھی اپنی پائمالی کا
ہے مگر اس قدر ملال کہاں

میں نئی دوستی کے موڑ پہ تھا
آگیا ہے تیرا خیال کہاں

دل کہ خوش فہم تھا سو ہے ورنہ
تیرے ملنے کا احتمال کہاں

وصل و ہجراں ہیں اور دنیائیں
ان زمانوں میں ماہ و سال کہاں

تجھ کو دیکھا تو لوگ حیراں ہیں
آگیا شہر میں غزال کہاں

تجھ پہ لکھی تو سج گئی ہے غزل
آ ملا خواب سے خیال کہاں

اب تو شہہ مات ہو رہی ہے فراز
اب بچاو کی کوئی چال کہاں

یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر


یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر
کیا لب دریامیری بے تابیاں کافی نہیں
تو جگر کو چاک کر کے اپنے یوں تڑپا نہ کر
دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب
آسماں پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا نہ کر
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں تو کیا عیب ہے
اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس
آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر
اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر
ہےمحبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز
عشق کی عزت ہے واجب، عشق سے کھیلا نہ کر
ہے عمل میں کامیابی، موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کرا

Wednesday, August 3, 2011

اے محبت !


اے محبت !
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے دانا
جو کمالات کیا کرتے تھے
خشک مٹی کو امارات کیا کرتے تھے
اے محبت
یہ تیرا بخت
کہ بن مول ملے ہم سے انمول
جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور
جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے
اے محبت میری
ہم تیرے مجرم ٹھہرے ،
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم جو سو باتوں کی ایک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم بگڑتے تو کئی کام بنا کرتے تھے
اور
اب تیری سخاوت کے گھنےسائے میں
خلقتِ شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے
مقسوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت
ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھہ کو آئندہ بھی عاشقوں کا خون پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے ، تجھ کو مگر جینا ہے
اے محبت
تیری قسمت
کہ تجھے مفت ملے ہم سے انمول
ہم سے دانا۔۔۔۔۔
اے محبت