میری سنگت میں مت بیٹھو
میں تنہائی پہنتا ہوں
اُداسی کے اُجاڑ آنگن میں چُنتا ہوں
میں اپنی ذات میں اُجڑے ہوئے گاؤں کا میلہ ہوں
میرے یارو
تمہارے ساتھ رہ کر بھی، اکیلا ہوں
میری سنگت میں مت بیٹھو
تمہیں تو خود سنورنا ہے
تمہاری خواہشوں کے بام و در پہ
روشنی کے پھول کھِلنا ہیں
تمہیں لکھنا ہے، اپنی سانس کی گرمی سے
نیندوں کا سفرنامہ
میری سنگت میں مت بیٹھو
کہ میں پتھر کا محبص ہوں
کہ میں محرومیوں کے شہر کا باسی
میری قسمت اُداسی، کم لِباسی، ناشناسی ہے
میری سنگت میں مت بیٹھو
مجھے ملنے سے کتراؤ
خود اپنے دل کو سمجھاؤ
میرے نزدیک مت آؤ
میرے دل میں اندھیرا ہے
اندھیرا صرف میرا ہے