پیمانِ وفا اور ہے سامانِ جفا اور
اُس فتنہِ دوراں نے کہا اور،کیا اور
تیور الگ،انداز جدا،اُن کی ادا اور
وہ اور ہوا میں ہیں،زمانے کی ہوا اور
ترکیب اُن کو منانے کی ہو کیا اور
میں جتنا مناتا ہوں،وہ ہوتے ہیں خفا اور
پی لیں جو کچھ شیخ تو پی پی کی پکاریں
اے ساقیِ میخانہ! ذرا اور،ذرا اور
محروم ہوا دین سے،دُنیا کی طلب میں
نافہم نے کچھ اور ہی سوچا تھا،ہوا اور
پھولوں کی وہاں دھوپ،یہاں سایہِ وحشت
گلشن کی فضا اور ہے،صحرا کی فضا اور
انصاف ملے گا سرِ میدانِ قیامت
اُن کا نہ خدا اور،نہ میرا ہی خدا اور
دیکھیں تو ذرا ہم بھی اُسے،اے ہمہ خوبی!۔
ہم جیسا وفادار کوئی ڈھونڈ کے لا! اور
چھوڑیں نہ محبت کو نصیر اہل محبت
یہ شوقِ خطا ہے، تو خطا اور خطا اور