شامِ غم! کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یونہی اُس کے جا و بےجا ناز کی باتیں کرو
جو عدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو
کُچھ قفس کی تیلیوں سے چِھن رہا ہے نُور سا
کُچھ فضا، کُچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو
جس کی فُرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق
آج اس عیسٰی نفس دم ساز کی باتیں کرو
فراق گورکھپوری