وفا کر کے بھی میں بے وفا نکلا
زندگی کے اس سفر پر میں تنہا نکلا
کچھ دور تک تو سایہ میرا
اور پھر وہ بھی بے وفا نکلا
زندگی کی اس راہ میں
کوئی بھی تو نہ تھا ہم سفر میرا
مانتا تھا جس کو زندگی
وہ ہی بے وفا نکلا
کس سے کروں شکوہ اور کیسے کروں
بس اس ویراں آنکھ سے ایک قطرہ نکلا
پیار کہوں یا کہوں خود فریبی اپنی
جس نے چاہا مجھ ا’سی کو الودا کہ نکلا
فیصی تو توکرتا تھا بڑا مان اپنے وعدوں پہ
مگر افسوس تو بھی ا ن جیسا نکلا