یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر
کیا لب دریامیری بے تابیاں کافی نہیں
تو جگر کو چاک کر کے اپنے یوں تڑپا نہ کر
دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب
آسماں پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا نہ کر
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں تو کیا عیب ہے
اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس
آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر
اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر
ہےمحبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز
عشق کی عزت ہے واجب، عشق سے کھیلا نہ کر
ہے عمل میں کامیابی، موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کرا