رات ساری جاگتے ہوئے گزری
شب تاریخک میں شمع جلاتے ہوئے گزری
اپنی ناکامیوں پہ افسوس کرتے ہوئے
اکھیوں سے اشک بہاتے ہوئے گزری
غموں سے بھر کہ اس ٹوٹے ہوئے دل کو
دکھوں سے اپنے بہلاتے ہوئے گزری
جس سے منسوب تھا میرے جیون کا ہر پل
اُسی اک بے وفا کو بھلاتے ہوئے گزری
ہر لمحہ قیاتمت کی مانند ٹھہرا
ہر گھڑی من کو تڑپاتے ہوئے گزری
وہ بھول گیا تو بھی بھول جا اُس کو
یہی اک بات دل کو سمجھاتے ہوئے گزری
بھول گیا تھا میں یاروں کب کا جیسے کل
ہوا بھی اُسی گیت کو گہنگناتے ہوئے گزری
اندھیروں نے بھی اپنی داستان سنائی مجھ کو
روشنی بھی اپنی کہانی سناتے ہوئے گزری
نفرت اور محبت کی کشمکش میں یہ زندگی
کچھ اُوتے ہوئے گزری کچھ مسکراتے ہوئے گزری