ذرہ ذرہ دہر کا زندانئ تقدير ہے
پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبير ہے
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہيں
انجمِ سيماب پا رفتار پر مجبور ہيں
ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار ميں
سبزہ و گل بھی ہيں مجبور نمو گلزار ميں
نغمۂ بلبل ہو يا آواز خاموش ضمير
ہے اسی زنجير عالم گير ميں ہر شے اسير
آنکھ پر ہوتا ہے جب يہ سر مجبورئ عياں
خشک ہو جاتا ہے دل ميں اشک کا سيل رواں
قلبِ انسانی ميں رقص عيش و غم رہتا نہيں
نغمہ رہ جاتا ہے، لطفِ زير و بم رہتا نہيں
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے
يعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے
گرچہ ميرے باغ ميں شبنم کی شادابی نہيں
آنکھ ميری مايہ دار، اشک عنابی نہيں
جانتا ہوں آہ، ميں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز
ميرے لب پر قصۂ نيرنگئ دوراں نہيں
دل مرا حيراں نہيں، خنداں نہيں، گِرياں نہيں
علامہ اقبال