پھول، کلیاں اور غنچوں کو چٹکتے دیکھنا
زیرِپا کچھ خشک پتے بھی سسکتے دیکھنا
ہے طلوعِ خاورِ ہستی امید افزا ضرور
پر کسی کی عمر کا سورج بھی ڈھلتے دیکھنا
دودھ کی نہریں نکالو گے مگر کب، اس گھڑی
چند بوندوں کے لیے بچے بلکتے دیکھنا
آتشِ ظاہر پہ قابو پانے والے دوستو
شدتِ گریہ سے سینے بھی سلگتے دیکھنا
لطفِ باراں پختہ ایوانوں میں ہے، لیکن حضور
کچا کوٹھا ایک مفلس کا ٹپکتے دیکھنا
ایک رنگین، چند پیسوں کے کھلونے کی طرف
بیوہ کے ننھے سے بچے کو اچھلتے دیکھنا
چشمِ گریاں، دست و پا لرزیدہ بوڑھے کو فراق
اپنے افسر بیٹے کے گھر سے نکلتے دیکھنا