شامِ تنہائی میں
اب بھی شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے
آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے
خواب بُنتا پھرے
کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے
کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے
کیا ہُوا جانِ جاں
کب سے سوئی نہیں
اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں
اُب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں
اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں
کون بے چین ہو
کون بےتاب ہو
موسمِ ہجر کی شامِ تنہائی میں
آبلہ پائی میں
کون ہو ہم سفر, گرد رہگزر
کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے ویران و برباد صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتی ہوں کہ اَب
ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں