Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, October 24, 2011

آج کے بعد


آج کے بعد
میری تم سے
ملاقات بھی نہ ممکن ہے
آخری بار یہ ملنا بھی
غنیمت سمجھو
وہ ملاقاتیں
تمھیں دل سے بھلانا ہوں گی
ان حسین لمحوں کو
اک خواب سمجھنا ہو گا
اک خواب بھی ایسا کے
جس کی کوئی تعبیر نہیں
جیسے رانھجا ہو مگر
اس کی کوئی ہیر نہ ہو
شہر کی گلیاں وہی
کوچہ و بازار وہی
اور میری ہار وہی
وقت کا کیا گزر جائے گا
روتے روتے
میں بھی اس بیتے ہوئے دور کا
کردار ہوں ایک
__________________

تمھارا خط مِلا جاناں


تمھارا خط مِلا جاناں
وہ جس میں تم نے پوچھا ہے
کہ ان حالات کیسے ہیں
میرے دن رات کیسے ہیں
مہربانی تمھاری ہے
کہ تم نے اس طرح مجھ سے
میرے حالات پوچھے ہیں
میرے دن رات پوچھے ہیں
تمھیں سب کچھ بتا دونگا
مجھے اتنا بتا دو کہ
کبھی ساغر کنارے پر
کِسی مچھلی کو دیکھا ہے
کہ جس کو لہریں پانی کی
کنارے تک تو لے آتی ہیں
مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں
میرے حالات ایسے ہیں
میرے دن رات ایسے ہیں

تاوان

سنو پیارے

میری آنکھیں خریدوگے

مجھے ایک خواب کا تاوان بھرنا ہے

تمنا


عمر کا وہ حصہ کہ جہاں
میں اور احساس دونوں جوبن پہ تھے
میں نے تم کو پانے کی تمنا میں
دونوں کو بوڑھا کر ڈالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ارادہ


دریا میں قطرے کی صورت
گم ہوجاؤں
اپنے آپ سے باہر نکلوں
تم ہوجاؤں

دروازہ کھلا رکھنا


دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا

سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
پھاگن کا نہيں ہے بادل جو چار گھڑي بر سے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے

دروازہ کھلا رکھنا

ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري

دروازہ کھلا رکھنا

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کر نے میں


ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کر نے میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کر نے میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کر نے میں
کسی موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کر نے میں

درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر


درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں
چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے
درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
جو ستم کرے آکر سب قبول ہے دل کو
ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے
خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے
چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے
راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

Saturday, October 22, 2011

میرے دل کی زمین پر اب بہاریں غیر لگتی ہیں


میرے دل کی زمین پر اب بہاریں غیر لگتی ہیں
سحر انگیز آنکھوں کی صدائیں غیر لگتی ہیں
جنوں ماتم نہیں کرتا وفائیں زہر لگتی ہیں
نگہبانِ چمن کی آرزوئیں قہر لگتی ہیں
یہ دل دریائے وحشت ہے یہ کب اعجاز کرتا ہے
خزاں کی حکمرانی ہے اُسی پر ناز کرتا ہے
مجھے برباد ہونے تک ذرا سرشار رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جن ہاتھوں کو قدرت ہے
فنا کے استعارے ہیں
رواں خوشبو کا موسم ہے
ستارے ہی ستارے ہیں
ابھی سورج نہیں نکلا ابھی فریاد مت کرنا
ابھی زخموں کو مت چھونا ستم کو یاد مت کرنا
ابھی اک عمر جاری ہے
ذرا وحشت سی طاری ہے
ذرا وحشت کے ڈھلنے تک
مجھے وحشت میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مری حاکم معیشت ہے
جسے مغرب نے پالا ہے
سروں پر تاج ان کے ہے
مرے سکوں کی مالا ہے
زباں جب ذکر کرتی ہے
ان ہی کا ورد کرتی ہے
مرے بازار کے آقا
مرے پندار کے آقا
کسی خواہش کے پتھر سے مجسمے مسمار کرتے ہیں
ستمگر چارہ گر بن کر مری بستی میں پھرتے ہیں
مجھے مسمار ہونے تک اسی بستی میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جنت بھی علامت ہے
بشارت کی کرامت ہے
گماں کے تیر چلتے ہیں
بہشتی پیر چلتے ہیں
انا کے آستانے پر گماں کو قتل کرتے ہیں
زبان کو قتل کرتے ہیں
مجھے مقتول ہونے تک اسی مقتل میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مرے اجداد غافل تھے میری خوشیوں کے قاتل تھے
وراثت کی غلامی نے مجھے آزاد رکھا ہے
وطن میں جو مسافر ہے کہاں آباد رکھا ہے
میں ان کھیتوں کی رونق ہوں
جہاں فصلیں مجھ ہی سے دام لیتی ہیں غریبی تھام لیتی ہیں
قلم کے کارخانے میں میری محنت کا ایندھن ہے
مگر میں لکھ نہیں سکتا
مرے بازار اپنے ہیں
مگر میں بِک نہیں سکتا
مرے ماحول نے مجھ کو مری قامت پہ ٹوکا ہے
مرے احباب نے مجھ کو بڑی حکمت سے رکھا ہے
مرا اسباب لٹنے دو مرے احباب رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو

جھوٹے بندھن


الفاظ کے جھوٹے بندھن میں
راز کے گہرے پردوں میں
ہر شخص محبت کرتا ہے
حالانکہ محبت کچھ بھی نہیں
سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں
سب دل رکھنے کی باتیں ہیں
سب اصلی روپ چھپاتے ہیں
احساس سے خالی لوگ یہاں
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں
ایک بار نظروں میں آکر وہ
پھر ساری عمر رلاتے ہیں
یہ عشق محبت مہر و وفا
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
ہر شخص خودی کی مستی میں
بس اپنی خاطر جیتا ہے۔

بارش میں پہاڑ کی ایک شام


بہت تیز بارش ہے
کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے
اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے
یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں
تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں
ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے:
مری جان
اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند
جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی
محبت

مگر تم کہاں ہو؟
یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے
بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے
نجانے تم آؤ نہ آؤ
میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں
کہ آنکھیں بجھا دوں؟

پہلا سفر


دو نگاہیں ملیں
مل کے پھر جھک گئیں
جھک کے پھر اُٹھھ گئیں
وقت تھم سا گیا
ھوش بھی کھو گئے
فاصلے
ایک لمحے میں طے ھو گئے
پھر اچانک نگاہیں
جدا ھو گئیں
یہ بصارت اُنہیں
ڈھونڈتی رہ گئی
اور اُس وقت سے حال بے چین ہے
یہ تھا پہلی محبت کا پہلا سفر
کس قدر تیز رو۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر مختصر۔۔۔۔۔ ۔۔

صدیوں سے اجنبی


اُس کی قربت میں بیتے سب لمحے
میری یادوں کا ایک سرمایہ
خوشبوؤں سے بھرا بدن اُس کا
قابلِ دید بانکپن اُس کا
شعلہ افروز حسن تھا اُس کا
دلکشی کا وہ اک نمونہ تھی
مجھھ سے جب ہمکلام ھوتی تھی
خواہشواں کے چمن میں ہر جانب
چاہتوں کے گلاب کھلتے تھے
اُس کی قربت میں ایسا لگتا تھا
اک پری آسماں سے اتری ھو
جب کبھی میں یہ پوچھتا اُس سے
ساتھھ میرے چلو گی تم کب تک؟
مجھھ سے قسمیں اُٹھا کے کہتی تھی
تُو اگر مجھھ سے دُور ھو جائے
ایک پل بھی نہ جی سکوں گی میں
آج وہ جب جدا ھوئی مجھھ سے
اُس نے تو الوداع بھی نہ کہا
جیسے صدیوں سے اجنبی تھے ہم۔۔۔۔۔

... آخری دن


ستمبر کے مہینہ کا وہ شاید آخری دن تھا
برس گزرے کئی۔۔۔۔۔
میں نے "محبت" لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر!
اچانک یاد آیا ہے
برس گزرے کئی۔۔۔
مجھھ کو کسی سے بات کرنا تھی
اُسے کہنا تھا
جانِ جاں! مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ہے دھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دوبارہ چاہ کر بھی میں محبت کرنہیں پایا۔۔۔۔

مہندی رنگے پاؤں کا فیصلہ


کیا بتلاؤں
کس دُکھھ سے گزری ھوں
کیسے میری گڑیا
سات سمندر پار سدھاری تنہا
کتنی سفّاکی سےاس پر
عورت پن کا بھید کُھلا
کیسے اس کا کانچ سے نازک دل ٹوٹا
کیسے اس پر
اپنے ساتھی کا بہروپ کُھلا
کیسے اس نے
اس دہلیز کو چھوڑا
جس پر
مہندی رنگا پاؤں دھرا تھا۔

سچّا مال


لفظوں کے سوداگر صاحب
تم سے رسم و راہ کو کتنے جگ بیتے ہیں
لیکن اب تم
جب آتے ھو
سچّا مال نہیں لاتے ھو
اچھا مال نہیں لاتے ھو

مہک


عرصہِ تمنا میں
اہل درد کی خوشبو
افتخار رکھتی ہے
اعتبار رکھتی ہے
یہ گروہِ غم آثار
غم بہ غم بہم ھو کر
خود سے دور ھونے تک
غم سے مہکے جاتا ہے
خالی شیشیاں جیسے
عطر کی مہکتی ہیں
چور چور ھونے تک۔۔۔۔

تمہیں یاد ہے؟


تمہیں یاد ہے؟
میرے اشک اپنی پوروں پہ رکھتے ھوئے
تم نے اک دن کہا تھا
"محبت تو اک خواب ھے
جو مسلسل روانی سے تھکتا نہیں ہے
تھکاتا نہیں ہے
جو دیکھو تو راہیں طوالت زدہ ہیں
جو سوچو تو کچھھ بھی طوالت نہیں ہے
جو دیکھو تو مشکل سفر سامنے ہے
جو سمجھو تو کچھھ بھی مسافت نہیں ہے
ہماری سبھی مشکلیں میری ھوں گی
تمہیں خوش نہ رہنےکی عادت نہیں ہے
میں رو دوں تو رو دوں مگر یاد رکھنا
تمہیں اب سے اس کی اجازت نہیں ہے"
مگر یہ حقیقت کہاں تم نے جانی
سفر کی تو اک شرط تھی ہمرہی بھی
تمہیں زیست سے اس قدر جلد اٹھایا گیا تھا
کہ راہیں بھی اپنی طوالت کو لے کر
میری طرح گُم صم کھڑی رہ گئی تھیں
مجھے یاد ہے جو بھی تم نے کہا تھا
مگر آج اچانک میں تھک سا گیا ھوں
یہ درد اور سہنے کی ہمت نہیں ہے
میرے اشک تم نے بہائے ہمیشہ
مجھے اب بھی اس کی اجازت نہیں ہے؟؟؟

Tuesday, October 18, 2011

کیوں نہ تیری آنکھوں کی جِھیل میں اتر جائیں


راحتیں کہاں ہوں گی، کون سے نگر جائیں
کیوں نہ تیری آنکھوں کی جِھیل میں اتر جائیں

کیوں نہ اِک الگ اپنا راستہ تراشیں ہم
کس کا نقشِ پا ڈھونڈیں، کس کی راہ پر جائیں

اس ملول صورت کی تاب کیسے لاؤ گے
یوں نہ ہو کہ پھر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جائیں

تیری جنبشِ لب پر انحصار ہے اپنا
تُو کہے تو جی لیں ہم، تُو کہے تو مر جائیں

کون اس زمانے میں سر پہ ہاتھ رکھے گا
کس کے در پہ لے کر ہم اپنی چشمِ تر جائیں

اہلِ درد کہتے ہیں وقت ایک مرہم ہے
اپنے زخم بھی شاید ایک روز بھر جائیں

گام گام پر عامر! مشعلیں جلائیں گے
آنے والوں کی خاطر روشنی تو کر جائیں

مقبول عامر

رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی

رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
اُنگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوں میں کوئی

دیدۂ تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
رُوپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی

غمزدہ شب کی گلوگیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوں میں کوئی

میں شب شہر میں تھا اور اُدھر گاؤں میں
جلتی شمعیں لیے پِھرتا رہا گالوں میں کوئی

ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اُجالوں میں کوئی

ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جائے تیرے چاہنے والوں میں کوئی

مقبول عامر

گمانِ صبح ہے کافی، خیالِ نُور بہت


گمانِ صبح ہے کافی، خیالِ نُور بہت
مِرے لئے یہ ذرا سا چراغِ طُور بہت
میں بارگاہِ محبت میں کس طرح جاؤں
مِرے گناہ بہت ہیں مِرے قصُور بہت
یہی بہت کہ خزاں میں بہار ہے مجھ پر
ہے پھول پھول یہی شاخ کو شعُور بہت
تمام عہد نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہیں
ہوا ہے شعر میں شاید مِرا ظہُور بہت
یہ میرے بیگ میں رکھ دے نہ کانچ کے ٹکڑے
میں بھیج دوں گا نئی چوڑیاں، ضرُور بہت
نصیب، نِسبتِ دشتِ عرب جسے منصور
بروزِ حشر وہی سایۂ کھجُور بہت
منصور آفاق

کہیں پہ یاد جواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے


کہیں پہ یاد جواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
کہیں پہ رقص میں جاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
یہ ساری راکھ، کبھی بستیاں رہی ہوں گی
کہیں کہیں پہ نشاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
تپش بڑھی تو ندی بھی سِمٹ گئی جیسے
کہیں پہ آب رواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
ابھی یہ آگ تو پھیلی نہیں ہے جنگل میں
کہیں پہ تیز دُھواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
سجی ہوئی ہے وفا کی دُکان ہر جانب
کہیں یہ شوق گراں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
بصیرتوں پہ ہے مبنی عبادتوں کا وقار
کہیں پہ نقش بُتاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
سفر سے لوٹ کے آیا ہے کارواں گھر کو
کہیں پہ سود و زیاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
مظفر ابدالی

پلٹ جانے کی عادت ہی نہیں تھی


پلٹ جانے کی عادت ہی نہیں تھی
مگر کچھ اور صُورت ہی نہیں تھی
پہنچنا تھا جہاں پہنچا تو جانا
وہاں میری ضرُورت ہی نہیں تھی
سلامت کیسے آتا اُس گلی سے
جنوں کی یہ روایت ہی نہیں تھی
پُکارا تھا مجھے بھی زندگی نے
غمِ دُنیا سے فُرصت ہی نہیں تھی
میں اُس بستی میں سجدے کر رہا تھا
جہاں رسمِ عبادت ہی نہیں تھی
پتا تھا تِیر کس جانب سے آیا
سو مجھ کو کوئی حیرت ہی نہیں تھی
غبار آلُودہ چہرہ کیا دِکھاتا
کہ صُورت میری صُورت ہی نہیں تھی
سوالی تھا وہ مجھ سے در گذر کا
مجھے اُس سے شکایت ہی نہیں تھی
میں اختر جس کی خاطر جی رہا تھا
اُسے مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
اختر عبدالرزاق

بِک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا


بِک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا
رفتہ رفتہ اُس نے سارے گھر کا سودا کر دیا
اپنے اپنے نام کی باہر لگا کر تختیاں
باغیوں نے شہر کے اندر کا سودا کر دیا
خیمۂ دشمن میں اپنی جان بخشی کے لئے
اِک سپہ سالار نے لشکر کا سودا کر دیا
آشیانے ہی کے اندر بدگماں صیّاد نے
طائرِ کمسن کے بال و پر کا سودا کر دیا
پہلے تو مفرور کو جائے اماں دی اور پھر
قافلے والوں نے اُس کے سر کا سودا کر دیا

اندھیرے کے پسِ پردہ، اُجالا کھوجتا کیوں ہے

اندھیرے کے پسِ پردہ، اُجالا کھوجتا کیوں ہے
جو اندھا ہو گیا وہ دن میں سورج ڈھونڈتا کیوں ہے
بتایا تھا تو لیلیٰ نے، مگر صحرا نہیں سمجھا
کہ مجنوں ریتلے در پر سر اپنا پھوڑتا کیوں ہے
یہ مانا ہجر کا غم تجھ پہ طاری ہے دلِ ناداں
جو آیا ہے وہ جائے گا تو ناحق سوچتا کیوں ہے
سحر ہونے کو ہے شاید، ستارے ہو گئے مدھم
شب غم جا رہی ہے تو ابھی تک اونگھتا کیوں ہے
یقیناً کچھ سبب تھا، تیری زنجیریں نہیں ٹوٹیں
مگر پائے شکستہ رہ سے بندھن توڑتا کیوں ہے
یہ دیواریں مرے گھر کی کھڑی خاموش سنتی ہیں
مرے اندر چھپا جذبہ الم کا بولتا کیوں ہے
جو طوفانی ہواؤں کے مقابل ہو نہیں سکتا
چلو دیکھیں سمندر سے وہ آخر کھیلتا کیوں ہے

اگر یہ رات نہ اپنے دِیے بجھایا کرے


اگر یہ رات نہ اپنے دِیے بجھایا کرے
تو کیسے کوئی حسابِ غمِ بقایا کرے
وہ ایک عکسِ گماں ہے تو دل سے دُور رہے
وہ خواب ہے تو مری آنکھ میں نہ آیا کرے
اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خُو ہے مگر
ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے
طویل ہجر کا حاصل ہے ایک لمحۂ وصل
تو کوئی اس کا بھی احسان کیا اٹھایا کرے
کبھی تو ہو کہ ہماری خموش گویائی
سماعتوں میں صدا بن کے پھیل جایا کرے
اُدھر سے پھر نہیں لوٹا گل آفتاب مرا
ہوا کو چاہیے پچھم سے روز آیا کرے
کوئی تو آ کے شبِ ہجر سے کہے خالد
رہے رہے، مگر اتنا نہ سر اٹھایا کرے
خالد علیم

ٹُوٹے دِل کی، رام کہانی، مت پوچھو


ٹُوٹے دِل کی، رام کہانی، مت پوچھو
کون تھا راجہ، کون تھی رانی، مت پوچھو
تنہا تنہا، چپکے چپکے، روئے ہیں
پتھر سے کب پُھوٹا پانی، مت پوچھو
جب تک چاہو تم بھی ڈیرا ڈال رہو
نام پتہ اور کوئی نشانی، مت پوچھو
لہجے کی تاثیر کا یارو! کیا کہنا
لفظوں کی بدمست روانی، مت پوچھو
سارا کلیجہ کٹ جائے گا یار نبیل
عہدِ جنوں کی بات پرانی، مت پوچھو
عزیز نبیل

اُس ایک ذات سے اپنا عجیب ناتا ہے


اُس ایک ذات سے اپنا عجیب ناتا ہے
میں جب بھٹکتا ہوں، وہ راستہ دِکھاتا ہے
سوادِ شب میں بھی روشن ہے راستہ میرا
وہ چاند بن کے مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ سوز و ساز، یہ تابندگی، یہ ہالۂ جاں
کوئی چراغ کی صُورت مجھے جلاتا ہے
میں کھو بھی جاؤں اگر زندگی کے میلے میں
وہ مہربان مجھے پھر سے ڈھونڈ لاتا ہے
فقیہِہ شہر کو معلوم ہی نہیں عامر
وہ راستہ جو دِلوں سے گُزر کے جاتا ہے
مقبول عامر

شبِ غم کچھ اِس طرح سے کٹی روتے روتے پیارے


شبِ غم کچھ اِس طرح سے کٹی روتے روتے پیارے
کبھی جل گئے ستارے، کبھی بُجھ گئے ستارے
یہ عجیب زندگی ہے، نہ ہمیں سکوں، نہ تم کو
نہ ہمارے ساتھ اپنے، نہ تمہارے ہیں تمہارے
بجُز ایک یادِ رفتہ، نہیں میرے پاس کچھ بھی
میں اُسے کہاں صدا دوں، وہ مجھے کہاں پکارے
زہے آبروئے ہستی، کہ ہے دشت میں بھی قائم
تجھے چاہتے ہیں کتنا، جو پھرے ہیں مارے مارے
تِری ایک اِک اذیّت، ہے مِرے لئے کھلونا
میں جیوں گا کس طرح سے کسی اور کے سہارے
کوئی صبر کرنے والا ہو کہ جان دینے والا
نہ گُزر سکیں جہاں دن تو وہ کس طرح گزارے
ہے نرالی رسمِ دنیا کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ
جو سجائے آسماں پر، وہی قبر میں اتارے
سرِ آبِ بحرِ اُلفت، جو کھڑا ہوا ہوں ناظرؔ
نہ قریب موجِ طوفاں، نہ بعید ہیں کنارے
عبداللہ ناظرؔ

سبُو نہیں کہ فقط ایک بار ٹُوٹے گا


سبُو نہیں کہ فقط ایک بار ٹُوٹے گا
ہزار بار، دلِ بے قرار ٹُوٹے گا
طلسمِ خواہشِ دیدارِ یار ٹُوٹے گا
کہ ہم پہ جب ستمِ روزگار ٹُوٹے گا
بڑھیں گے کیا کسی تعبیر کی طرف ہم لوگ
ہمارا خواب اگر بار بار ٹُوٹے گا
وہ مات کھائے گا، جو وقت سے رہا پیچھے
جو سُر کا ساتھ نہ دے گا، وہ تار ٹُوٹے گا
شکستگی کو برابر کی چوٹ چاہیے ہے
خزاں کے ہاتھوں غرورِ بہار ٹُوٹے گا
بدل نہ اپنا بیاں تُو کسی کے کہنے پر
کہ اِس طرح سے تِرا اعتبار ٹُوٹے گا
اِنہیں قبول کیا جائے خوشدلی سے فصیح
اِسی طرح سے غموں کا حصار ٹُوٹے گا
شاہین فصیح ربانی

حنا کا رنگ ہوں میں ہاتھوں پر تو آؤں گا


حنا کا رنگ ہوں میں ہاتھوں پر تو آؤں گا
اُتر گیا تو مہک اپنی چھوڑ جاؤں گا
غزل کا شعر ہوں دل کی کتاب میں لکھ لو
بُھلا دیا تو کبھی یاد بھی نہ آؤں گا
تیرا ہی اشکِ تمنّا ہوں روک لو مجھ کو
میں ایک دن تیری پلکوں پہ جگمگاؤں گا
خلوصِ دل سے اگر صدا دی کسی نے مجھے
گئی بہار کی طرح پھر لوٹ آؤں گا

کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی


کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی
اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نکہتِ گُل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شورِ تلاطم میں کوئی کس کو پکارے؟
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں، کیو ں آؤں درِ ابرِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑو ں سے جہاں چھن کے ضیاء تک نہیں آتی
یا جاتے ہوئے مجھ سے لِپٹ جاتی تھیں شاخیں
یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی
کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی
چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوتِ گل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا؟
ٹوٹی ہوئی قبروں سےصدا تک نہیں آتی
بہتر ہے، پلٹ جاؤ سیہ خانۂ غم سے
اس سرد گُپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی

Sunday, October 16, 2011

رات گہری ہے


رات گہری ہے
مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار
دمکتا ہے ابھی

میری سانسوں میں ترا لمس
مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام
دھڑکتا ہے ابھی

زیست کرنے کو مرے پاس
بہت کُچھ ہے ابھی
تیری آواز کا جادو ہے ابھی
میرے لیے

تیرے ملبوس کی خوشبو ہے
ابھی میرے لیے
تیری بانہیں ،ترا پہلو ہے
ابھی میرے لیے

سب سے بڑھ کر، مری جاں !تو
ہے ابھی میرے لیے
زیست کرنے کو مرے پاس
بہت کُچھ ہے ابھی

آج کی شب تو کسی طور گُزر
جائے گی!
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہو
گا

عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا
کی ہو گا
میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا
ہو گا!

آج کی شب تو بہت کچھ ہے ،
مگر کل کے لیے
ایک اندیشہ بے نام ہے اور
کچھ بھی نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ
سے ملاقات کے بعد
رنگِ اُمید کھِلے گا کہ بکھر
جائے گا!

وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر
جائے گا!
جیت ہو جائے گی یا کھیل
بگڑ جائے گا

خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ
جائے گا!

انسان گھٹائے جاتے ہیں


انسان گھٹائے جاتے ہیں، سایوں کو بڑھایا جاتا ہے
دنیا میں ہماری یہ کیسا، اندھیر مچایا جاتا ہے

ہے پست بہت معیارِ ستم، کیا زور دکھایا جاتا ہے
گردن جو کبھی اٹھتی ہی نہیں، اس کو بھی اڑایا جاتا ہے

ہم اہلِ سیاست کے کرتب، ہر روز ہی دیکھا کرتے ہیں
چن چن کے یہاں مجبوروں کو انگلی پہ نچایا جاتا ہے

پہلے تو جتائی جاتی ہے ہمدردی پیاس کے ماروں سے
پھر آنکھ بچا کر پانی میں، کچھ زہر ملایا جاتا ہے

یہ بات کسی سے کیا پوچھوں، محتاجوں کو اس دنیا میں
“جو بار اٹھانا پڑتا ہے، کیونکر وہ اٹھایا جاتا ہے“

گرنے پہ میرے افسوس نہ کر، دنیا میں ہمیشہ اے قیصر
جب خود کو اٹھانا ہوتا ہے، بہتوں کو گرایا جاتا ہے

قیصر شمیم

♥ مکاں اور مکيں ♥


اتني بڑي ان دنيائوں ميں
اپنے نام کي تختي والي ايک عمارت
کتنے دکھوں کي اينٹيں چن کر گھر بنيتي ہے
پتھر پتھر جوڑ کر ديکھو
ميں نے بھي اک گھر ہے بنايا
رنگوں، پھولوں، تصويروں سے احساس کو سجايا
دروازے کي لوح پہ اپنا نام لکھايا
ليکن اس کے ہر کمرے ميں تم رہتے ہو۔۔

ياد


اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا
اک ياد جگاتا گزرے گا

اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا

اس موسم ميں
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا

آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو

تمہيں ميں کس طرح ديکھوں


تمہيں ميں کس طرح ديکھوں
دريچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کي چلمن ہے
اور اس چملن کے پيچھے چھپ کے بيٹھے
کچھ ستارے ہيں ستاروں کي
نگاہوں ميں عجيب سي ايک الجھن ہے
وہ ہم کو ديکھتے ہيں اور پھر آپس ميں کہتے ہيں
يہ منظر آسماں کا تھا يہاں پر کس طرح پہنچا
زميں ذادوں کي قسمت ميں يہ جنت کس طرح آئي؟
ستاروں کي يہ حيراني سمجھ ميں آنے والي ہے
کہ ايسا دلنشيں منظر کسي نے کم ہي ديکھا ہے
ہمارے درمياں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں ميں لکھيں تو کتابيں جگمگااٹھيں
جو سوچيں اس کے بارے ميں توروہيں گنگنا اٹھيں
يہ تم ہو ميرے پہلو ميں
کہ خواب زندگي تعبير کي صورت ميں آيا ہے؟
يہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپني مسکراہٹ سے جہاں ميں روشني کردے
لہو ميں تازگي بھردے
بدن اک ڈھير ريشم کا
جو ہاتھوں ميں نہيں رکتا
انوکھي سي کوئي خوشبو کہ آنکھيں بند ہو جائيں
سخن کي جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائيں
چھپا کاجل بھري آنکھوں ميںکوئي راز گہرا ہے
بہت نزديک سے ديکھيں تو چيزيں پھيل جاتي ہيں
سو ميرے چار سو دو جھيل سي آنکھوںکا پہرا ہے
تمہيں ميں کس طرح ديکھوں

ان جھيل سے گہري آنکھوں ميں


ان جھيل سي گہري
ان جھيل سي گہري آنکھوں ميں اک شام کہيں آباد ہو
اس جھيل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نيلا پھول کھلے
وہ پھول بہاديں لہروں ميں
اک روز کبھي ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں ميں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہيں ان آنکھوں ميں اس بسرے پل کي ياد تو ہو
ان جھيل سي گہري آنکھوں میں اک شام کہيں آباد تو ہو

پھر چاہے عمر سمندر کي
ہر موج پريشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دريجے سے
ہر خواب گريزاں ہوجائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر در نمايا ہو جائے

اس جھيل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ايجاد تو ہو
دن رات کے اس آئينے سے وہ عکس کبھي آزاد تو ہو
ان جھيل سے گہري آنکھوں ميں اک شام کہيں آباد تو ہو

کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے


کوئي زنجير
آہن کي چاندي کي روايت کي
محبت توڑ سکتي ہے
يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسي آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنورير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے

يہ وقت بھي کتنا ظالم ہے۔۔۔۔


وقت بھي کتنا
اتنے برس کي دوري اور مجبوري کے
افسون سفر ميں لپٹا ہوا
اک شخص اچانک آن ملا
ميں اس کو ديکھ کے ششدرتھا
وہ مجھ سے سو حيران ملا۔۔۔

يہ وقت بھي کتنا ظالم ہے
اس ہجر ميں کيا کيا رونے تھے ھم
اس ياد میں کيا کيا کھوئے تھے ہم

کچھ دير تو دنوں چھ سے رہے
پھر اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔تم کيسے ہو؟
اور ميں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔بس اچھا ہوں۔۔۔

پھر اس نے کہا
يہ اتنے دنوں کے بعد کا ملنا رہا۔۔۔۔۔۔
کوئي پرانا دوست ملے تو دل کو بھلا سا لگتا ہے
يہ شہر تو بالکل بدل گيا۔۔۔۔۔۔اب چلتي ہوں۔۔

پھر ميں نے کہا۔
ميں شام سمے ہرروز يہاں آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جب وقت ملے تم آجانا۔۔۔۔۔۔
اس وقت مجھے جلدي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب چلتا ہوں
يہ وقت بھي کتنا ظالم ہے۔

میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں قاسم مقسوم نہیں
میں تسلیم کا پیکر ہوں

میں حاکم محکوم نہیں
میں نے ظلم سہے لیکن

میں پھر بھی مظلوم نہیں
میں مستی کا ساغر ہوں

ہوش سے میں محروم نہیں
تیری رحمت چھوڑے کون

توبہ میں معصوم نہیں
میرے تبریزی انداز

میں مولائے روم نہیں
میں مسجود ملائک ہوں

میں راقم مرقوم نہیں
میں مخلوق کا خادم ہوں

کون میرا مخدوم نہیں
جیتے جی مرجاتا ہوں

مرکے میں معدوم نہیں
میں نے کیا کیا دیکھا ہے

میں یونہی مغموم نہیں
میں صحرا کی جان ہوا

میں بادِ مسموم نہیں
میں مایوس نہیں لیکن

امید موہوم نہیں

دل


خوشی کے موسم میں بھی
کوئی نہ کوئی سبب ڈھونڈ لیتا ہے
افسردگی کا
تیرے بعد
اور
بولتا کچھ نہی

♥ کيا کروں بس گيا ايک شخص انوکھا مجھ ميں ♥


اب نہيں درد چھپانے کا قرينہ مجھ ميں
کيا کروں بس گيا ايک شخص انوکھا مجھ ميں

اس کي آنکھيں مجھے مشہور کيے رکھتي ہيں
وہ جو ايک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ ميں

ميرے چہرے پہ اگر قرب کے آثار نہيں
يہ نا سمجھو کہ نہيں کوئي تمنا مجھ ميں

اپني مٹي سے رہي ايسي رفاقت مجھ کو
پھيلتا جاتا ہے ايک ريت کا صحرا مجھ ميں

ڈوب تو جائوں تيري مدھ بھري آنکھوں ميں مگر
لڑکھڑانے کا نہيں حوصلہ اتنا مجھ ميں

مياں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئي بات نہيں
بہتا رہتا ہے تيري ياد کا دريا مجھ ميں

جب سے ايک شخص نے ديکھا ہے محبت سے بقا
پھيلتا جاتا ہے ہر روز اجالا مجھ ميں

کیسا لمحہ آن پڑا ہے


کیسا لمحہ آن پڑا ہے
ہنستا گھر ویران پڑا ہے
بستر پر کچھ پھول پڑے ہیں
آنگن میں گلدان پڑا ہے
کرچی کرچی سپنے سارے
دل میں اک ارمان پڑا ہے
لوگ چلے ہیں صحرائوں کو
اور نگر سنسان پڑا ہے
اک جانب اک نظم کے ٹکڑے
اک جانب عنوان پڑا ہے

عالمِ نزع


کبھی جو تم کو
میں یاد آئوں
تو اپنے آنگن
میں بیٹھ کر تم
ہوا سے باتیں
کرو
کہ میں بھی
اِسی ہوا میں
کہیں پہ بیٹھا
اُداس و افسردہ
دشتِ ہستی میں
صرف تم کو ہی
سوچتا ہوں

دل


ایک عمارت
جس کی اونچی
دیواروں کے
اندر
کئی صدیوں کا
غم پلتا ہے

نہر کنارے آ جانا


جب چاند ہو اپنے جوبن پر
اور سنگ ترے تنہائی ہو
جب چاروں اَور اُداسی ہو
جب پڑھنے سے گھبرائے دل
اور قابو میں نہ آئے دل
تو نہر کنارے آ جانا

جب یادوں کی گھنگھور گھٹا
تنہائی میں دل پر چھا جائے
آنکھوں سے نیند چلی جائے
جب سانس ذرا سی رُک جائے
تو نہر کنارے آ جانا

سندیسہ


اُسے کہنا!
یہاں سب کچھ
تمہاے بِن ادھورا ہے
گئے لمحوں کی یادیں ہیں
عذابِ زندگانی ہے
فراقِ ناگہانی ہے
اُسے کہنا!
کہ لوٹ آئے

دُعا


میرے مولا!
جن کو میں نے
ٹوٹ کے چاہا
اُن سے دُکھ ہی دُکھ
پائے ہیں
میرے مولا!
مجھ کو یہ
توفیق عطا کر
کہ میں اُن کو
دُکھ کے بدلے
سکھ ہی سکھ دوں

زندگی


چار سُو ‘ پھیلی ہوئی
اک بے بسی
اک تیرگی
ناکامیاں
آوارگی
شاید!
یہی ہے زندگی

اُس سے کہو!


اُس سے کہو!
کی سارے موسم
اک اک کر کے
لوٹ آئے ہیں
اُس سے کہو!
کہ پت جھڑ کے سب
زردی مائل پھول بکھر کر
سوکھ گئے ہیں
فصلِ گُل ہے
شاخوں پر اب پھول کِھلے ہیں
اُس سے کہو!
کہ ساون کی ہر بوند نے دل پر
دستک دی ہے
اُس سے کہو!
کہ گھر آنگن میں
زرد اُداسی
اور مری تنہائی دونوں
ناچ رہی ہیں
گھر سُونا ہے
اُس سے کہو!
کہ لوٹ آئے وہ

مجھے اک شعر کہنا ہے


اُداسی کے حسیں لمحو
کہاں ہو تم
کہ میں کب سے
تمہاری راہ میں
خوابوں کے نذرانے لئے بیٹھا
حسیں یادوں
کی جھولی میں
کہیں گُم ہوں
ارے لمحو!
مجھے اِس خواب سے بیدار کرنے کے لئے آئو‘
میری سوچوں کے خاکوں میں
کوئی اک رنگ بھر جائو‘
مجھے اک شعر کہنا ہے

Wednesday, October 5, 2011

زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے


زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
تیر لہجے کا کلیجے میں اُتر جاتا ہے

موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا
شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے

شعبدہ کیسا دِکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے، بھلے آدمی مر جاتا ہے

آنکھ نہ جھپکوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے
گر جھپک لوں تو یہ جیون یوں گزر جاتا ہے

مندروں میں بھی دُعائیں تو سنی جاتی ہیں
اشک بہہ جائیں جدھر ، مولا اُدھر جاتا ہے

حسن اَفزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا
پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے

غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہو گا
کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے

ایسی باتیں جو ’’اکیلے‘‘ میں نہ ’’دیوانہ‘‘ کرے
بادشہ وہ بھرے دربار میں کر جاتا ہے

گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اَقرب
سر بچا لوں تو مرا ذوقِ ہنر جاتا ہے

قیس! گر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد
سوچنے والا تو اِس دور میں مر جاتا ہے

شہزاد قیس

کُھلا یہ بھید کہ اب تُو بھی ہے جہان کے ساتھ


کُھلا یہ بھید کہ اب تُو بھی ہے جہان کے ساتھ
پڑاؤ ڈال چکے جب تِرے مکان کے ساتھ

دو منزلوں کی رفاقت کے بعد لوٹ گیا
وہ زور مارتا کب تک مِری اُڑان کے ساتھ

اب اُنگلیوں سے نشاں فتح کا بناتے ہو
اب اپنے ہاتھ بھی کٹواؤ گے زبان کے ساتھ

جھپٹ رہا ہے شکاری کے ہاتھ پر طائر
لگاؤ موت سے اسکو ہے یا کمان کے ساتھ

ظہیرؔ! کاش سمجھ جائیں یہ جہاں والے
مری اُڑان کے تیور مری اُٹھان کے ساتھ

ثناءاللہ ظہیر

بھید کھولیں گے اب نہ یہ دل کے


بھید کھولیں گے اب نہ یہ دل کے
ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے

مجھ سے مِلنا تِرا دِکھایا ہے
آسماں نے زمین سے مِل کے

بِس کی پُڑیاں تھیں گُھورتی آنکھیں
مُنہ نمونے تھے سانپ کی بِل کے

شرط ہی جب بِدی تھی کچھووں سے
خواب کیا دیکھنے تھے منزل کے

وہ بھنور کا غرور کیا جانے
سُکھ جسے مِل گئے ہوں ساحل کے

خوش تھے نامِ صبا و سِپرا پر
جتنے مزدور بھی ملے مِل کے

دیکھ ماجد! دیا کلی نے ابھی
درس جینے کا شاخ پر کھِل کے

ماجد صدیقی

جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں


جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں

ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی
خوشبوئیں بولتی ہیں، رنگ وہاں سنتے ہیں

ایک ویرانہ ہے، قبریں ہیں، خموشی ہے مگر
دل یہ کہتا ہے کہ، کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں

زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید
آنکھ رکھتے ہیں شجر، بات بھی ہاں سنتے ہیں

تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ
ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں

بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں، سنتے ہیں

منصور آفاق

چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں


چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں
دل شکستے، جاں الستے، سبز مستے سینکڑوں

یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام
آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں

روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے
چلنے والے کیلئے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں

میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی
تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں

دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں

منصور آفاق

کچھ نہیں بے سبب، سبب کیا ہے


کچھ نہیں بے سبب، سبب کیا ہے
پوچھنے والے! پوچھ ربّ کیا ہے
تیرگی، بے خودی کا نام نہیں
بے اَدب کا کوئی نسب کیا ہے
غم سے خامۂ سینۂ دل تک
حرف چیخیں تو پھر عجب کیا ہے
روز کہتے ہیں، روز سنتے ہیں
نام معلوم ہے، لقب کیا ہے
رشتۂ جاں بدلتا رہتا ہے
کون، کس کیلئے ہے، کب، کیا ہے
ہجر میں ہم نے تو گِنا بھی نہیں
کیا ہے یہ روز اور شب کیا ہے
ذَرّے ذَرّے میں ہے وِصال کا رنگ
پھر عجم کیا ہے اور عرب کیا ہے
جس کو مل جائے ربّ، اُس کیلئے
رحم کیا چیز ہے، غضب کیا ہے
شور کیسا ہے اُس کے آنے کا
دِید کیسی ہے اور طلب کیا ہے
جب کہ کچھ بھی نہ لینا دینا ہو
پھر یہ تکرارِ بے سبب کیا ہے

میرے گیتوں سے چاند رات گئی


میرے گیتوں سے چاند رات گئی
وہ جو بُڑھیا تھی، سُوت کات گئی

کتنے تارے بنائے آنکھوں نے
آخرِ کار بِیت رات گئی

بن گئی خامشی بھی افسانہ
تیرے گھر تک ہماری بات گئی

آپ سے ایک بات کہنی تھی
آپ آئے تو بُھول بات گئی

زندگی ساتھ کب تلک دیتی
وہ تو اِک شے تھی بے ثبات، گئی

وہ جو آسی پہ تھی کبھی اُن کی
وہ نظر دے کے دل کو مات گئی

محمد یعقوب آسی

اُس کے لہجے میں شکایت ہے، خفا ہے مجھ سے


اُس کے لہجے میں شکایت ہے، خفا ہے مجھ سے
پھر بھی پہلے کی طرح ہنس کے مِلا ہے مجھ سے

وہ یہی سوچ کے رستے میں رُکا تھا شاید
اِک تعلق تو بہرحال رہا ہے مجھ سے

کیا خبر تُو ہی خطاوار ہے، ہرجائی ہے
بارہا دل کو یہ اِلزام مِلا ہے مجھ سے

کیا پتا پھر سے کسی روز مِلا دے قسمت
آج پھر جاتے ہوئے کہہ وہ گیا ہے مجھ سے

اب تعلق ہے کوئی اور نہ رشتہ پھر بھی
فیصلہ اُس کی حمایت میں ہوا ہے مجھ سے

اب نکل آؤ اپنے اندر سے...


اب نکل آؤ اپنے اندر سے
گھر میں سامان کی ضرورت ہے

ہم نے جانا، تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے

خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت، بڑی اذیت ہے

لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
ہاں میرا غم ہی میری فرصت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے

جون ایلیا

سب کو ادراکِ زیاں، گِر کے سنبھلنے سے ہُوا...


سب کو ادراکِ زیاں، گِر کے سنبھلنے سے ہُوا
مجھ کو احساس ترے در سے نکلنے سے ہُوا

کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار
حال زنداں کا یہ اِک میرے نکلنے سے ہُوا

کوئی رازِ دلِ کہسار نہ کُھلنے پایا
روز اعلان تو چشموں کے اُبلنے سے ہُوا

یہ مری فکر کہ آنکھوں کی خطا کہتا ہوں
گرچہ زخمی مرا سر، پاؤں پِھسلنے سے ہُوا

میں کہ معلوم مجھے اپنی حقیقت، نہ مقام
تُو کہ مقصود مرا، رُوپ بدلنے سے ہُوا

گُدگُدایا مجھے سورج نے تو پلکیں جھپکیں
شور دریا میں، مری برف پِگھلنے سے ہُوا

لوگ اُن کو مرے حالات بتا دیتے ہیں
فائدہ خاک مجھے نام بدلنے سے ہُوا

ٹھوکریں لگتی ہیں ہمسایوں کو اس کُوچے سے
یہ اندھیرا، تری قندیل نہ جلنے سے ہُوا

اپنا سر پھوڑ، زمانے کی تباہی پہ نہ رو
جو ہُوا، خون کی تاثیر بدلنے سے ہُوا

ہے تری ذات سے مشتق مرے لوہے کا مزاج
میں تو کندن ہی، تری آگ میں جلنے سے ہُوا

میرے قدموں سے تعارف نہیں کرتی راہیں
یہ خسارہ بھی، مرے ساتھ نہ چلنے سے ہُوا

میں تھا ڈُوبا ہُوا دہکی ہُوئی تاریکی میں
میرا آغازِ سفر، چاند نکلنے سے ہُوا

آنا جانا بھی غنیمت ہے وہاں اے دانش
میں جو بیمار ہُوا، گھر میں ٹہلنے سے ہُوا

احسان دانش

خُوشبُو کی طرح، ساتھ لگا لے گئی ہم کو...


خُوشبُو کی طرح، ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کُوچے سے تِرے بادِ صبا لے گئی ہم کو

پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اِک موج بہرحال، بہا لے گئی ہم کو

پھر چھوڑ دیا، ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دُور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو

تم کیسے گِرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو

ہم کون شناور تھے کہ یُوں پار اُترتے؟
سُوکھے ہوئے ہونٹوں کی دُعا لے گئی ہم کو

اِس شہر میں غارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی، بچا لے گئی ہم کو

رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس...


ایسے لگتا ہے، یہی قوم کے غمخوار ہیں بس
رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس

ان پہ کیوں کھولتے ہو جنّتِ فردوس کے باب
اہلِ دنیا ہیں، یہ دنیا کے طلبگار ہیں بس

اہلِ حق جانتے ہیں عدل کے اثمار ہیں کیا
اہلِ ظُلمت پہ یہ اثمار گراں بار ہیں بس

ملک لُوٹا ہے مگر پھر بھی معزز ہیں وہ
کیسی مجبوری کہ ہم انکے طرفدار ہیں بس

ہم وہ بدبخت، نہیں چاہتے ہیں اپنوں کو
اور غیروں کی محبت میں گرفتار ہیں بس

کون سا جُرم تھا اپنا کہ ملی جس کی سزا
ہم سیہ کار مروّت کے سزاوار ہیں بس

سعداللہ شاہ

کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی...

کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی
اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نکہتِ گُل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شورِ تلاطم میں کوئی کس کو پکارے؟
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں، کیو ں آؤں درِ ابرِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑو ں سے جہاں چھن کے ضیاء تک نہیں آتی
یا جاتے ہوئے مجھ سے لِپٹ جاتی تھیں شاخیں
یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی
کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی
چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوتِ گل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا؟
ٹوٹی ہوئی قبروں سےصدا تک نہیں آتی
بہتر ہے، پلٹ جاؤ سیہ خانۂ غم سے
اس سرد گُپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی

اب اس کے بعد تِرا اور کیا ارادہ ہے...


اب اس کے بعد تِرا اور کیا ارادہ ہے
کہ میرا صبر، تِرے جبر سے زیادہ ہے

تُو بُوئے گل کی طرح اُڑ رہا ہے اور کوئی
تِری تلاش میں برسوں سے پا پیادہ ہے

میں جنگ جیت کے تم کو معاف کر دوں گا
تمہاری سوچ سے بڑھ کر یہ دل کُشادہ ہے

غریبِ شہر سمجھتی ہے جس کو یہ دُنیا
وہ شخص خواب جزیروں کا شاہزادہ ہے

میں سرگِراں تھا، مگر اتنا مُضطرب تو نہ تھا
رگوں میں آگ رواں ہے کہ موجِ بادہ ہے

جُدا نہیں مِری رنگت زمین سے عامر
یہ اڑتی دُھول مِرے جسم کا لبادہ ہے

مقبول عامر

قُربت کا سبب ہو بھی تو کُھل کر نہیں مِلتے...


قُربت کا سبب ہو بھی تو کُھل کر نہیں مِلتے
کچھ یہ بھی سِتم ہے کہ ہم اکثر نہیں مِلتے

بے مہرئ حالات یا قسمت کا لِکھا ہے
دل جس سے بھی ملتا ہے مقدّر نہیں مِلتے

کچھ خانہ خرابوں کی خبر ہو، تو خبر ہو
ہم ڈھونڈنے والوں کو کبھی گھر نہیں مِلتے

موسم کا بُرا ہو سرِ بام شبِ ہجراں
اب یاد کے جگنو بھی منوّر نہیں مِلتے

کچھ خواب جو خُوشبو کی طرح پھیل چکے ہیں
اب مجھ کو مِری ذات کے اندر نہیں مِلتے

اس شہرِ خُدا ساز میں مجنوں کی دعا سے
بُت اتنے زیادہ ہیں کہ پتھر نہیں مِلتے

سعید خان

اِس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے...


اِس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے
کہنا ہو سچ، تو کہہ کے مُکر جانا چاہیے

جلتی ہیں روز جس کے اِشارے پہ بستیاں
اُس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے

ہم وہ سفر نصیب ہیں، جن کو خبر نہیں
کِس سمت جا رہے ہیں، کِدھر جانا چاہیے

ہارا ہے جسم، حوصلہ ہارا نہیں ابھی
سو اس طرح نہیں ہے کہ مر جانا چاہیے

کہتے ہیں بے حسی یہاں پھرتی ہے رات بھر
دن دن میں اس جگہ سے گزر جانا چاہیے

صحرا کی چاندنی کے بلاوے پر اس طرح
اچھا نہیں ہے جانا، مگر جانا چاہیے

اظہر مسافروں کو ضرورت ہے سائے کی
صحرائے بے شجر میں ٹھہر جانا چاہیے

اظہر ادیب

نہ دل سے آہ، نہ لب سے صدا نکلتی ہے


نہ دل سے آہ، نہ لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات، بڑی دُور جا نکلتی ہے

سِتم تو یہ ہے کہ عہدِ سِتم کے جاتے ہی
تمام خلق مری ہمنوا نکلتی ہے

وصالِ بحر کی حسرت میں جُوئے کم مایہ
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے

میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لئے مرے دل سے دعا نکلتی ہے

وہ زندگی ہو کہ دنیا فراز کیا کیجے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے

خُوشبو سے مہکی ہوئی ہر شام جلا دی...

خُوشبو سے مہکی ہوئی ہر شام جلا دی
لوگوں نے اِسی شغل میں اِک عمر گنوا دی

ہونٹوں نے تو رکھا ہے بھرم میرے جنوں کا
آنکھوں نے مگر ضبط کی دیوار گِرا دی

سفّاک اندھیروں کا کچھ زور تو ٹُوٹے
ہم نے بھی یہی سوچ کے اِک شمع جلا دی

دیواروں سے زنداں کی اُبھرنے لگے نغمات
جب ہم نے ذرا پاؤں کی زنجیر ہلا دی

پالا تھا جسے ہم نے لہو اپنا پِلا کر
آنگن میں اُسی بھائی نے دیوار اُٹھا دی

بے شک کسی منزل پہ پہنچنا نہیں آساں
تم نے تو مگر خواہشِ منزل ہی بُھلا دی

پہلے تو مجھے فکر کی دولت سے نوازا
پھر میرے سوالات پہ قدغن بھی لگا دی

لوگوں نے پلٹ کر کبھی دیکھا نہیں فیاض
ہم نے تو ہمیشہ ہی محبت سے صدا دی

وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا ...


وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا
کیا اِسکی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا

بندوق کے دستے پر، تحریر تھا امریکا
میں قتل کا بھائی کو اِلزام نہیں دیتا

کچھ ایسے بھی اندھے ہیں، کہتے ہیں خدا اپنا
پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا

رستے پہ بقاء کے بس قائم ہے منافع بخش
اُس پیڑ نے کٹنا ہے، جو آم نہیں دیتا

اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی
برسات نہیں چلتی،غم کام نہیں دیتا

جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملِتے تھے
کوئی بھی خریدار اب، وہ دام نہیں دیتا

بیڈ اپنا بدل لینا، منصور ضروری ہے
یہ خواب دِکھاتا ہے، آرام نہیں دیتا

منصور آفاق

سوہنی دھیان...

تم ہی بتاؤ
اس نے ان کچے خوابوں کے بل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
چڑھتے جوبن کے ساحل پر
اِک باغی خواہش کا موسم
اُس کو پاگل کر دیتا تھا
وہ اپنی مستی کے رَس میں
بھیگ رہی تھی
لیکن اُس کی نیند سے باہر
طوفانوں کی گرج چمک تھی
ہر سائے میں موت کھڑی تھی
آدھی رات کو
وہ انجان بھنور میں اُتری
اِک من تاری
اپنے من کے پار سدھاری
کُوک سکی نہ لاج کی ماری
لہر لہر نے اُس کے تن کو ڈھانپ لیا تھا
تُم ہی بتاؤ
اُس نے ان کچے خوابوں کے
بل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟

سرمد صہبائی

مستقبل


تیرے لیے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پُھول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چنتا رہتا ہوں
تُو آئے گا اسی آس پر جُھوم رہا ہے دل
دیکھ اے مستقبل
اِک اِک کرکے سارے ساتھی چھوڑ گئے
مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے
سوچتا ہوں بیکار گِلہ ہے غیروں کا
اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے
تیرے بھی دشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل
دیکھ اے مستقبل
جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سرمحفل
دیکھ اے مستقبل

حبیب جالب

گلیڈی ایٹرز ...

ہم اپنے قتل ہونے کا تماشہ دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
” ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا
میں نہیں تھا
میں تو زندہ ہوں ۔۔۔۔ یہاں
دیکھو
مری آنکھیں، مرا چہرہ، مرے بازو
سبھی کچھ تو سلامت ہے“
ابھی کل ہی کا قصّہ ہے
سرِ مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے
پہ ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے
ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر
سارے منظر دیکھتے تھے
اور یہ کہتے تھے
” نہیں یہ ہم نہیں ہیں“
ہماری آستیں پر خون کے دھبّے ابھی تازہ ہیں
سُوکھے بھی نہیں

امجد اسلام امجد

تیرا سپنا امر سمے تک...


تیرا سپنا امر سمے تک
اپنی نیند ادھُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

کالے پنکھ کُھلے کوئل کے
کُوکی بن میں دُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

تیرے تن کا کیسر مہکے
خوشبو اُڑے سندھُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

میرا عشق زمیں کی مٹی
ناں ناری ناں نُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

سزا جزا مالک کا حصہ
بندے کی مزدُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

تیرا ہجر رُتوں کی ہجرت
تیرا وصل حضُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

تیری مُشک بدن کا موسم
جوبن رس انگُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

بوسہ بوسہ انگ انگ میں
کس نے گُوندھی چُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

تیرا کِبر ، تیری یکتائی
اپنا من منصُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

تن کو چِیر کے پُھوٹی خواہش
کیا ظاہر مستُوری، سائیں
اپنی نیند ادھُوری

سرمد صہبائی

سورج! تیری آگ بُجھے گی کتنے پانی سے؟


سوچ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
ایک ہی بیج سے جب یہ اتنے ڈھیروں پیڑ اُگے
ایک ہی پیڑ کی شاخ شاخ پہ مہکے جو سب پُھول
ایک ہی پُھول کے دامن میں جو سارے رنگ بھرے
پھر یہ کیسا فرق ہے ان میں، کیسا ہے اُلجھاؤ ؟
ایک ہی پُھول کی ہر پتی میں دُنیا ایک نئی
ایک ہی شاخ پہ کِھل اُٹھتے ہیں کیسے کیسے پُھول
ایک ہی پیڑ پہ مِل جاتے ہیں باہم رنگ کئی
لیکن ان کے میل میں بھی ہے اِک دُوری موجود
کھا جاتے ہیں زرد سیہ کو سُرخ اور گہرے رنگ
زورآور سے دب جاتے ہیں، جتنے ہیں کمزور
طاقت والے ہو جاتے ہیں طاقتور کے سنگ
پوچھ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
سُکھ کا دن کب پیدا ہوگا، رات کہانی سے؟
دھرتی! تیرا پیٹ بھرن کو کتنی مٹی ہو؟
سورج! تیری آگ بُجھے گی کتنے پانی سے؟

امجد اسلام امجد

محبت کرنے والے دل


محبت کرنے والے دل
بس ان کا ایک ہی محور
بس ان کا ایک ہی مرکز
بس ان کی ایک ہی منزل
بس ان کی جستجو کا اور تڑپ کا
ایک ہی حاصل
انہیں بس ایک ہی دُھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے
نہ اس کا دل کبھی ٹوٹے
نہ کوئی سانحہ گزرے
کوئی غم چُھو نہیں پائے
اُداسی پاس نہ آئے
محبت کرنے والے دل
بہت حسّاس ہوتے ہیں
محبت کرنے والے دل
کبھی سودا نہیں کرتے
نہ کوئی شرط رکھتے ہیں
نہ ان کے معاوضے کی حرص ہوتی ہے
کسی ردّعمل سے یا بدلے سے
ان کو کیا مطلب
انا سے ان کا کیا رشتہ
جفا سے کیا علاقہ
انہیں تو ایک ہی دھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے

خلیل اللہ فاروقی

جاناں میری بات سُنو...


کچھ لمحے
ان درد میں ڈُوبی پلکوں کے سنّاٹے میں
کچھ خواب بُنو
کچھ لمحے
تم تِتلی بن کر تنہائی کے غاروں
میں بے باک اُڑو
کچھ لمحے
تم اُنگلی پکڑ کر خاموشی کی
پگڈنڈی پر ساتھ چلو
کچھ لمحے
اُس نیلی بارش کے منظر میں رنگ بھرو
دل چاہتا ہے
تم آج ہمارے ساتھ رہو
جاناں میری بات سُنو

محبت رُت میں لازم ہے...



سُنو جاناں
محبت رُت میں لازم ہے
بہت عُجلت میں یا تاخیر سے وہ مرحلہ آئے
کوئی بے درد ہو جائے
محبت کی تمازت سے بہت بھرپُور سا لہجہ
اچانک سرد ہو جائے
گُلابی رُت کی چنچل اوڑھنی بھی زرد ہو جائے
تو ایسے موڑ پر ڈرنا نہیں، رُکنا نہیں، گھبرا نہیں جانا
غضب ڈھاتی ہوئی سفّاک موجوں سے
کسی بھی سُرخ طوفاں سے
بہت نازک سی، بے پتوار دل کی ناؤ کو اُس پل
ہمیں دوچار کرنا ہے
ہمارا عہد ہے خود سے
کسی قیمت پہ بھی ہم کو
سمندر پار کرنا ہے

یہ بارشیں بھی تُم سی ہیں...


یہ بارشیں بھی تُم سی ہیں
جو برس گئیں تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئیں تو قرار ہیں
کبھی آ گئیں یونہی بے سبب
کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب
کبھی شور ہیں، کبھی چُپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تُم سی ہیں
کسی یاد میں، کسی رات کو
اِک دبی ہوئی سی راکھ کو
کبھی یوں ہوا کہ بُجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا
کبھی بُوند بُوند میں غم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تُم سی ہیں

یادوں کی راکھ...


میرا کل، میرا ماضی ہے
اِس ماضی کی کچھ یادیں ہیں
اِس ماضی کی تحریریں ہیں
اور ڈھیر سی تصویریں ہیں
یہ ماضی مجھے جینے نہیں دیتا
کچھ آگے چلنے نہیں دیتا
اِسی لئے میں سوچتا ہوں
کیوں نہ اِن یادوں کا آج
ڈھیر لگا کر
تحریریں، تصویریں جلا کر
اور اِن کی پھر راکھ بنا کر
کھڑکی کھول کے، تیز ہوا میں
راکھ یہ آج، اُڑا دیتا ہوں
دل سے تُجھے بُھلا دیتا ہوں

راکھ راکھ رُتیں ...


یہ راکھ راکھ رُتیں، اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ، تم اپنے خواب چُنو
بِکھرتی ڈُوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنے دل میں دھڑکتے ہوئے حرف سُنو
تمارے شہر کی گلیوں میں سیلِ رنگ بخیر
تمہارے نقشِ قدم پھول پھول کِھلتے رہیں
وہ راہگزر، جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں، آسماں ملتے رہیں
نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سُنو
ہر اِک صدا پہ دھڑکنا بھی دل کا فرض نہیں
سکوتِ حلقۂ زنجیر ِدر کیوں ٹُوٹے
صبا کا ساتھ نِبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی، کس کے ساتھ بِیت گئی
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے
کہ فصل بخششِ موجِ فرات بِیت گئی
یہ اِک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا
وہ اِک صدی تھی جو بے التفات بِیت گئی
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بُجھا ہے کہ رات بِیت گئی