چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں
دل شکستے، جاں الستے، سبز مستے سینکڑوں
یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام
آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں
روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے
چلنے والے کیلئے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں
میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی
تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں
دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں
منصور آفاق