اندھیرے کے پسِ پردہ، اُجالا کھوجتا کیوں ہے
جو اندھا ہو گیا وہ دن میں سورج ڈھونڈتا کیوں ہے
بتایا تھا تو لیلیٰ نے، مگر صحرا نہیں سمجھا
کہ مجنوں ریتلے در پر سر اپنا پھوڑتا کیوں ہے
یہ مانا ہجر کا غم تجھ پہ طاری ہے دلِ ناداں
جو آیا ہے وہ جائے گا تو ناحق سوچتا کیوں ہے
سحر ہونے کو ہے شاید، ستارے ہو گئے مدھم
شب غم جا رہی ہے تو ابھی تک اونگھتا کیوں ہے
یقیناً کچھ سبب تھا، تیری زنجیریں نہیں ٹوٹیں
مگر پائے شکستہ رہ سے بندھن توڑتا کیوں ہے
یہ دیواریں مرے گھر کی کھڑی خاموش سنتی ہیں
مرے اندر چھپا جذبہ الم کا بولتا کیوں ہے
جو طوفانی ہواؤں کے مقابل ہو نہیں سکتا
چلو دیکھیں سمندر سے وہ آخر کھیلتا کیوں ہے