خُوشبو سے مہکی ہوئی ہر شام جلا دی
لوگوں نے اِسی شغل میں اِک عمر گنوا دی
ہونٹوں نے تو رکھا ہے بھرم میرے جنوں کا
آنکھوں نے مگر ضبط کی دیوار گِرا دی
سفّاک اندھیروں کا کچھ زور تو ٹُوٹے
ہم نے بھی یہی سوچ کے اِک شمع جلا دی
دیواروں سے زنداں کی اُبھرنے لگے نغمات
جب ہم نے ذرا پاؤں کی زنجیر ہلا دی
پالا تھا جسے ہم نے لہو اپنا پِلا کر
آنگن میں اُسی بھائی نے دیوار اُٹھا دی
بے شک کسی منزل پہ پہنچنا نہیں آساں
تم نے تو مگر خواہشِ منزل ہی بُھلا دی
پہلے تو مجھے فکر کی دولت سے نوازا
پھر میرے سوالات پہ قدغن بھی لگا دی
لوگوں نے پلٹ کر کبھی دیکھا نہیں فیاض
ہم نے تو ہمیشہ ہی محبت سے صدا دی