Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Tuesday, October 18, 2011

کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی


کیا کہیے کہ اب اسکی صدا تک نہیں آتی
اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نکہتِ گُل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شورِ تلاطم میں کوئی کس کو پکارے؟
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں، کیو ں آؤں درِ ابرِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑو ں سے جہاں چھن کے ضیاء تک نہیں آتی
یا جاتے ہوئے مجھ سے لِپٹ جاتی تھیں شاخیں
یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی
کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی
چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوتِ گل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا؟
ٹوٹی ہوئی قبروں سےصدا تک نہیں آتی
بہتر ہے، پلٹ جاؤ سیہ خانۂ غم سے
اس سرد گُپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی