کچھ نہیں بے سبب، سبب کیا ہے
پوچھنے والے! پوچھ ربّ کیا ہے
تیرگی، بے خودی کا نام نہیں
بے اَدب کا کوئی نسب کیا ہے
غم سے خامۂ سینۂ دل تک
حرف چیخیں تو پھر عجب کیا ہے
روز کہتے ہیں، روز سنتے ہیں
نام معلوم ہے، لقب کیا ہے
رشتۂ جاں بدلتا رہتا ہے
کون، کس کیلئے ہے، کب، کیا ہے
ہجر میں ہم نے تو گِنا بھی نہیں
کیا ہے یہ روز اور شب کیا ہے
ذَرّے ذَرّے میں ہے وِصال کا رنگ
پھر عجم کیا ہے اور عرب کیا ہے
جس کو مل جائے ربّ، اُس کیلئے
رحم کیا چیز ہے، غضب کیا ہے
شور کیسا ہے اُس کے آنے کا
دِید کیسی ہے اور طلب کیا ہے
جب کہ کچھ بھی نہ لینا دینا ہو
پھر یہ تکرارِ بے سبب کیا ہے