میرے دل کی زمین پر اب بہاریں غیر لگتی ہیں
سحر انگیز آنکھوں کی صدائیں غیر لگتی ہیں
جنوں ماتم نہیں کرتا وفائیں زہر لگتی ہیں
نگہبانِ چمن کی آرزوئیں قہر لگتی ہیں
یہ دل دریائے وحشت ہے یہ کب اعجاز کرتا ہے
خزاں کی حکمرانی ہے اُسی پر ناز کرتا ہے
مجھے برباد ہونے تک ذرا سرشار رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جن ہاتھوں کو قدرت ہے
فنا کے استعارے ہیں
رواں خوشبو کا موسم ہے
ستارے ہی ستارے ہیں
ابھی سورج نہیں نکلا ابھی فریاد مت کرنا
ابھی زخموں کو مت چھونا ستم کو یاد مت کرنا
ابھی اک عمر جاری ہے
ذرا وحشت سی طاری ہے
ذرا وحشت کے ڈھلنے تک
مجھے وحشت میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مری حاکم معیشت ہے
جسے مغرب نے پالا ہے
سروں پر تاج ان کے ہے
مرے سکوں کی مالا ہے
زباں جب ذکر کرتی ہے
ان ہی کا ورد کرتی ہے
مرے بازار کے آقا
مرے پندار کے آقا
کسی خواہش کے پتھر سے مجسمے مسمار کرتے ہیں
ستمگر چارہ گر بن کر مری بستی میں پھرتے ہیں
مجھے مسمار ہونے تک اسی بستی میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
یہ جنت بھی علامت ہے
بشارت کی کرامت ہے
گماں کے تیر چلتے ہیں
بہشتی پیر چلتے ہیں
انا کے آستانے پر گماں کو قتل کرتے ہیں
زبان کو قتل کرتے ہیں
مجھے مقتول ہونے تک اسی مقتل میں رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو
مرے اجداد غافل تھے میری خوشیوں کے قاتل تھے
وراثت کی غلامی نے مجھے آزاد رکھا ہے
وطن میں جو مسافر ہے کہاں آباد رکھا ہے
میں ان کھیتوں کی رونق ہوں
جہاں فصلیں مجھ ہی سے دام لیتی ہیں غریبی تھام لیتی ہیں
قلم کے کارخانے میں میری محنت کا ایندھن ہے
مگر میں لکھ نہیں سکتا
مرے بازار اپنے ہیں
مگر میں بِک نہیں سکتا
مرے ماحول نے مجھ کو مری قامت پہ ٹوکا ہے
مرے احباب نے مجھ کو بڑی حکمت سے رکھا ہے
مرا اسباب لٹنے دو مرے احباب رہنے دو
مجھے ناکام لوگوں میں سرفہرست رہنے دو