شبِ غم کچھ اِس طرح سے کٹی روتے روتے پیارے
کبھی جل گئے ستارے، کبھی بُجھ گئے ستارے
یہ عجیب زندگی ہے، نہ ہمیں سکوں، نہ تم کو
نہ ہمارے ساتھ اپنے، نہ تمہارے ہیں تمہارے
بجُز ایک یادِ رفتہ، نہیں میرے پاس کچھ بھی
میں اُسے کہاں صدا دوں، وہ مجھے کہاں پکارے
زہے آبروئے ہستی، کہ ہے دشت میں بھی قائم
تجھے چاہتے ہیں کتنا، جو پھرے ہیں مارے مارے
تِری ایک اِک اذیّت، ہے مِرے لئے کھلونا
میں جیوں گا کس طرح سے کسی اور کے سہارے
کوئی صبر کرنے والا ہو کہ جان دینے والا
نہ گُزر سکیں جہاں دن تو وہ کس طرح گزارے
ہے نرالی رسمِ دنیا کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ
جو سجائے آسماں پر، وہی قبر میں اتارے
سرِ آبِ بحرِ اُلفت، جو کھڑا ہوا ہوں ناظرؔ
نہ قریب موجِ طوفاں، نہ بعید ہیں کنارے
عبداللہ ناظرؔ