اُس کے لہجے میں شکایت ہے، خفا ہے مجھ سے
پھر بھی پہلے کی طرح ہنس کے مِلا ہے مجھ سے
وہ یہی سوچ کے رستے میں رُکا تھا شاید
اِک تعلق تو بہرحال رہا ہے مجھ سے
کیا خبر تُو ہی خطاوار ہے، ہرجائی ہے
بارہا دل کو یہ اِلزام مِلا ہے مجھ سے
کیا پتا پھر سے کسی روز مِلا دے قسمت
آج پھر جاتے ہوئے کہہ وہ گیا ہے مجھ سے
اب تعلق ہے کوئی اور نہ رشتہ پھر بھی
فیصلہ اُس کی حمایت میں ہوا ہے مجھ سے