تم ہی بتاؤ
اس نے ان کچے خوابوں کے بل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
چڑھتے جوبن کے ساحل پر
اِک باغی خواہش کا موسم
اُس کو پاگل کر دیتا تھا
وہ اپنی مستی کے رَس میں
بھیگ رہی تھی
لیکن اُس کی نیند سے باہر
طوفانوں کی گرج چمک تھی
ہر سائے میں موت کھڑی تھی
آدھی رات کو
وہ انجان بھنور میں اُتری
اِک من تاری
اپنے من کے پار سدھاری
کُوک سکی نہ لاج کی ماری
لہر لہر نے اُس کے تن کو ڈھانپ لیا تھا
تُم ہی بتاؤ
اُس نے ان کچے خوابوں کے
بل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
سرمد صہبائی