پلٹ جانے کی عادت ہی نہیں تھی
مگر کچھ اور صُورت ہی نہیں تھی
پہنچنا تھا جہاں پہنچا تو جانا
وہاں میری ضرُورت ہی نہیں تھی
سلامت کیسے آتا اُس گلی سے
جنوں کی یہ روایت ہی نہیں تھی
پُکارا تھا مجھے بھی زندگی نے
غمِ دُنیا سے فُرصت ہی نہیں تھی
میں اُس بستی میں سجدے کر رہا تھا
جہاں رسمِ عبادت ہی نہیں تھی
پتا تھا تِیر کس جانب سے آیا
سو مجھ کو کوئی حیرت ہی نہیں تھی
غبار آلُودہ چہرہ کیا دِکھاتا
کہ صُورت میری صُورت ہی نہیں تھی
سوالی تھا وہ مجھ سے در گذر کا
مجھے اُس سے شکایت ہی نہیں تھی
میں اختر جس کی خاطر جی رہا تھا
اُسے مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
اختر عبدالرزاق