جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں
ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی
خوشبوئیں بولتی ہیں، رنگ وہاں سنتے ہیں
ایک ویرانہ ہے، قبریں ہیں، خموشی ہے مگر
دل یہ کہتا ہے کہ، کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں
زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید
آنکھ رکھتے ہیں شجر، بات بھی ہاں سنتے ہیں
تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ
ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں
بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں، سنتے ہیں
منصور آفاق