سبُو نہیں کہ فقط ایک بار ٹُوٹے گا
ہزار بار، دلِ بے قرار ٹُوٹے گا
طلسمِ خواہشِ دیدارِ یار ٹُوٹے گا
کہ ہم پہ جب ستمِ روزگار ٹُوٹے گا
بڑھیں گے کیا کسی تعبیر کی طرف ہم لوگ
ہمارا خواب اگر بار بار ٹُوٹے گا
وہ مات کھائے گا، جو وقت سے رہا پیچھے
جو سُر کا ساتھ نہ دے گا، وہ تار ٹُوٹے گا
شکستگی کو برابر کی چوٹ چاہیے ہے
خزاں کے ہاتھوں غرورِ بہار ٹُوٹے گا
بدل نہ اپنا بیاں تُو کسی کے کہنے پر
کہ اِس طرح سے تِرا اعتبار ٹُوٹے گا
اِنہیں قبول کیا جائے خوشدلی سے فصیح
اِسی طرح سے غموں کا حصار ٹُوٹے گا
شاہین فصیح ربانی