سوچ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
ایک ہی بیج سے جب یہ اتنے ڈھیروں پیڑ اُگے
ایک ہی پیڑ کی شاخ شاخ پہ مہکے جو سب پُھول
ایک ہی پُھول کے دامن میں جو سارے رنگ بھرے
پھر یہ کیسا فرق ہے ان میں، کیسا ہے اُلجھاؤ ؟
ایک ہی پُھول کی ہر پتی میں دُنیا ایک نئی
ایک ہی شاخ پہ کِھل اُٹھتے ہیں کیسے کیسے پُھول
ایک ہی پیڑ پہ مِل جاتے ہیں باہم رنگ کئی
لیکن ان کے میل میں بھی ہے اِک دُوری موجود
کھا جاتے ہیں زرد سیہ کو سُرخ اور گہرے رنگ
زورآور سے دب جاتے ہیں، جتنے ہیں کمزور
طاقت والے ہو جاتے ہیں طاقتور کے سنگ
پوچھ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
سُکھ کا دن کب پیدا ہوگا، رات کہانی سے؟
دھرتی! تیرا پیٹ بھرن کو کتنی مٹی ہو؟
سورج! تیری آگ بُجھے گی کتنے پانی سے؟
امجد اسلام امجد