دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ
دروازہ کھلا رکھنا
سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
پھاگن کا نہيں ہے بادل جو چار گھڑي بر سے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے
دروازہ کھلا رکھنا
ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري
دروازہ کھلا رکھنا