کہیں پہ یاد جواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
کہیں پہ رقص میں جاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
یہ ساری راکھ، کبھی بستیاں رہی ہوں گی
کہیں کہیں پہ نشاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
تپش بڑھی تو ندی بھی سِمٹ گئی جیسے
کہیں پہ آب رواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
ابھی یہ آگ تو پھیلی نہیں ہے جنگل میں
کہیں پہ تیز دُھواں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
سجی ہوئی ہے وفا کی دُکان ہر جانب
کہیں یہ شوق گراں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
بصیرتوں پہ ہے مبنی عبادتوں کا وقار
کہیں پہ نقش بُتاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
سفر سے لوٹ کے آیا ہے کارواں گھر کو
کہیں پہ سود و زیاں ہے، کہیں نہیں بھی ہے
مظفر ابدالی