انسان گھٹائے جاتے ہیں، سایوں کو بڑھایا جاتا ہے
دنیا میں ہماری یہ کیسا، اندھیر مچایا جاتا ہے
ہے پست بہت معیارِ ستم، کیا زور دکھایا جاتا ہے
گردن جو کبھی اٹھتی ہی نہیں، اس کو بھی اڑایا جاتا ہے
ہم اہلِ سیاست کے کرتب، ہر روز ہی دیکھا کرتے ہیں
چن چن کے یہاں مجبوروں کو انگلی پہ نچایا جاتا ہے
پہلے تو جتائی جاتی ہے ہمدردی پیاس کے ماروں سے
پھر آنکھ بچا کر پانی میں، کچھ زہر ملایا جاتا ہے
یہ بات کسی سے کیا پوچھوں، محتاجوں کو اس دنیا میں
“جو بار اٹھانا پڑتا ہے، کیونکر وہ اٹھایا جاتا ہے“
گرنے پہ میرے افسوس نہ کر، دنیا میں ہمیشہ اے قیصر
جب خود کو اٹھانا ہوتا ہے، بہتوں کو گرایا جاتا ہے
قیصر شمیم