بِک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا
رفتہ رفتہ اُس نے سارے گھر کا سودا کر دیا
اپنے اپنے نام کی باہر لگا کر تختیاں
باغیوں نے شہر کے اندر کا سودا کر دیا
خیمۂ دشمن میں اپنی جان بخشی کے لئے
اِک سپہ سالار نے لشکر کا سودا کر دیا
آشیانے ہی کے اندر بدگماں صیّاد نے
طائرِ کمسن کے بال و پر کا سودا کر دیا
پہلے تو مفرور کو جائے اماں دی اور پھر
قافلے والوں نے اُس کے سر کا سودا کر دیا