بھید کھولیں گے اب نہ یہ دل کے
ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے
مجھ سے مِلنا تِرا دِکھایا ہے
آسماں نے زمین سے مِل کے
بِس کی پُڑیاں تھیں گُھورتی آنکھیں
مُنہ نمونے تھے سانپ کی بِل کے
شرط ہی جب بِدی تھی کچھووں سے
خواب کیا دیکھنے تھے منزل کے
وہ بھنور کا غرور کیا جانے
سُکھ جسے مِل گئے ہوں ساحل کے
خوش تھے نامِ صبا و سِپرا پر
جتنے مزدور بھی ملے مِل کے
دیکھ ماجد! دیا کلی نے ابھی
درس جینے کا شاخ پر کھِل کے
ماجد صدیقی