یہ راکھ راکھ رُتیں، اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ، تم اپنے خواب چُنو
بِکھرتی ڈُوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنے دل میں دھڑکتے ہوئے حرف سُنو
تمارے شہر کی گلیوں میں سیلِ رنگ بخیر
تمہارے نقشِ قدم پھول پھول کِھلتے رہیں
وہ راہگزر، جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں، آسماں ملتے رہیں
نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سُنو
ہر اِک صدا پہ دھڑکنا بھی دل کا فرض نہیں
سکوتِ حلقۂ زنجیر ِدر کیوں ٹُوٹے
صبا کا ساتھ نِبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی، کس کے ساتھ بِیت گئی
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے
کہ فصل بخششِ موجِ فرات بِیت گئی
یہ اِک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا
وہ اِک صدی تھی جو بے التفات بِیت گئی
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بُجھا ہے کہ رات بِیت گئی