گمانِ صبح ہے کافی، خیالِ نُور بہت
مِرے لئے یہ ذرا سا چراغِ طُور بہت
میں بارگاہِ محبت میں کس طرح جاؤں
مِرے گناہ بہت ہیں مِرے قصُور بہت
یہی بہت کہ خزاں میں بہار ہے مجھ پر
ہے پھول پھول یہی شاخ کو شعُور بہت
تمام عہد نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہیں
ہوا ہے شعر میں شاید مِرا ظہُور بہت
یہ میرے بیگ میں رکھ دے نہ کانچ کے ٹکڑے
میں بھیج دوں گا نئی چوڑیاں، ضرُور بہت
نصیب، نِسبتِ دشتِ عرب جسے منصور
بروزِ حشر وہی سایۂ کھجُور بہت
منصور آفاق