Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, November 21, 2011

نیم خوابیدہ تنفس

اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی
چاندنی کی چاپ سنتی ہوں
گماں ہے‘آج بھی شا ید
میرے ماتھے پہ تیرے لب
ستا رے ثبت کرتے ہیں!


مرحومہ پروین شاکر صا حبہ

ہم ہی نادان تھے


ہم ہی نادان تھے
سوچا کرتے تھے یہ
کیسے ہو سکتا ہے
ایک وعدہ شکن
اپنی نادانی پر
اب پشیمان نہ ہو
بیتی رُت کے لئے
وہ اکیلا بھی ہو
اور پریشان نہ ہو

سبب


ایک پشیمانی سی رہتی ھے
الجھن اور گرانی بھی
آؤ پھر سے لڑ کر دیکھیں شاید
اس سے بہتر کوئی اور سبب مل جائے ھمکو
پھر سے الگ ھو جانے کا

تمھیں بھلانے کی ٹھان لی ہے


ہمارے دل نے
تمھیں بھلانے کی ٹھان لی ہے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے تمھیں بھلا دیں
ہماری پلکوں کی چلمنوں پیں تمھارا چہرہ چُھپا ہوا ہے
تمھیں جو دیکھا ،
ہماری دھڑکن کے تار باجے
کھنن کھنن چوڑیاں پکاریں
چھنن چھنن پائلوں نے چھیڑا فضائیں جُھومیں
ہتھیلیوں کو حنا نے چوما تو چومتی ہی چلی گئی ہے
یہ زلف گیندے کی خوشبوؤں میں رچی بسی ہے
تمھیں جو دیکھا
ہوا نے سرگوشیوں میں پوچھا
ہو کھوئی کھوئی سی کس لئے تم؟
گلاب جیسا تمھارا چہرہ کیا ہے کس نے؟
یہ تھر تھراتے سے ہونٹ کیسے ہوئے گلابی؟
تمھارے ماتھے پہ اوس چمکی ہے کیوں اچانک؟
تمھارے دل کی دھّڑک دھّڑک میںِ،
یہ کس کے ہاتھوں کی دستکوں کی ہے تھاپ شامل؟
یہ بات بے بات چونک اُٹھتی ہو کس لئے تم؟
سنو ، ستاروں سے تم کو باتوں کی خُو پڑی ہے بتاؤ کب سے؟
یہ کب سے تم نے دئے دریچے پہ رکھ کے جگنے کی ٹھان لی ہے؟
سنو سہیلی ،چُھپا رہی ہو
تمھیں محبت ہوئی کسی سے !
تمھیں محبت ہوئی کسی سے

کہانی آزماتی ہے۔۔۔۔ : فاخرہ بتول


کہانی نت نئے انداز رکھتی ہے
کھبی تو مسکراتی ہے کبھی یہ گنگناتی ہے
کبھی خود سہم جاتی ہے ، کبھی ہم کو ڈراتی ہے
ہنساتی ہے، رلاتی ہے ، مٹاتی ہے،بناتی ہے
کہانی بے کلی میں کام آتی ہے
کہانی سے مرا سنجوگ خاصا ہی پرانا ہے
کہانی خود زمانہ ہے
وہ آج آئی تو خاصی مضطرب سی تھی
کہا اس نے ،سکھی !سسّی کی صورت تو تھلوں میں رُل گئی کیسے ؟
ترے پیروں میں خاروں نے ہزاروں چھید کر ڈالے
انہی خاروں نے تیرا دل فگارا ہے
مگر تو آج بھی ُچپ ہے
ترے ہاتھوں کی ساری اُنگلیوں پر موت لکھی ہے
ہتھیلی پر جو تو نے دیپ رکھّا تھا وہ جل کر بجھ گیا کب سے؟
فقط اب راکھ باقی ہے
مسافر راستوں کی قید میں ُگم ہو گیا شاید
جبھی تو ُہو کا عالم ہے
کہانی روز آتی ہے ، نئے چرکے لگاتی ہے
کہانی آزماتی ہے۔۔۔۔

بھول جاؤ


بھول جاؤ
کہ اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے؟
یہی نا!
دو چار ملاقاتیں
ادھورے شکوے
ادھوری باتیں
اور کچھہ اداس شامیں
چند ٹوٹی ہوئی امنگیں
فون کی بے ربط کالیں
اور کیا ہے اپنے ماضی میں؟
بھول جاؤ ۔ ۔ ۔

علیم اقبال

اک اونچی پرواز


چڑیا نے تو سوچی تھی
اک اونچی پرواز
لیکن
ظالم
باز

میں اک پات خزاں کا


میں اک پات خزاں کا
اور تُو تیز ہوا.....
تیری مرضی پر ہے
مجھ کو اُڑا یا گِرا
یہی ہے میرا مقدر
اور یہی ہے سزا
کیسے بکھروں گا میں
تو اب دیکھتی جا
بس کچھ دیر کے بعد اب
سمجھ میں خاک ہوا

Tuesday, November 15, 2011

عجیب کُرب میں گزری، جہاں گزری


عجیب کُرب میں گزری، جہاں گزری
اگرچہ چاہنے والوں کے درمیاں گزری

تمام عمر جلاتے رہے چراغ ِامید
تمام عمر اُمیدوں کے درمیاں گزری

گزر گئی جو تیرے ساتھ، یادگار ہے وہ
تیرے بغیر جو گزری، بلائے جاں گزری

مجھے سکون میّسر نہیں تو کیا غم ہے
گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے درمیاں گزری

عجیب چیز ہے یہ گردش ِزمانہ بھی
کبھی زمیں پہ، کبھی مثل ِآسماں گزری — w

ستارے بانٹتا ہے وہ، ضیاء تقسیم کرتا ہے


ستارے بانٹتا ہے وہ، ضیاء تقسیم کرتا ہے
سُنا ہے حبس ِموسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے

اُسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں اکثر حنِا تقسیم کرتا ہے

کوئی روکے اُسے جا کر، سراسر یہ ہے پاگل پن
جو بہروں کے محلے میں صدا تقسیم کرتا ہے

اُسی سے مانگ تو، باقی چھوڑ دے سب کو
جو پتھر میں بھی کیڑے کو غذا تقسیم کرتا ہے

اک روپ کے ساگر میں نہاتی رہی آنکھیں


اک روپ کے ساگر میں نہاتی رہی آنکھیں
کچھ خواب میرے دل میں سجاتی رہی آنکھیں

یادوں کے دریچے پہ وہ دیتی رہی دستک
کل رات بہت مجھ کو ستاتی رہی آنکھیں

پلکوں پہ ٹپکنے نہ دیا ایک بھی آنسو
یہ رسم ِمحبت بھی نبھاتی رہی آنکھیں

احساس کے زینے سے اترتی رہی خوشبو
مدھوش میرے دل کو بناتی رہی آنکھیں

ہر کسی کو دنیا میں شہرتیں نہیں ملتیں


ہر کسی کو دنیا میں شہرتیں نہیں ملتیں
زندگی کے لمحوں کی قیمتیں نہیں ملتیں

فتح کی خواہش میں اعمال بھی تو لازم ہیں
صرف کچھ ارادوں سے منزلیں نہیں ملتیں

فیصلے یہ چاہت کے آسماں پہ ہوتے ہیں
دو دلوں کے ملنے سے قسمتیں نہیں ملتیں

دین اور دنیا کو ساتھ رکھنا پڑتا ہے
مسجدوں میں رہنے سے جنتیں نہیں ملتیں

مان لو زمانے میں اور بھی ہیں مجھ جیسے
حسب ِآرزو جنہیں چاہتیں نہیں ملتیں

بس یہی میرا اثاثہ ہے


کچھ وعدے، قسمیں، یادیں تھیں
کچھ قہقہے تھے، فریادیں تھیں
کچھ آنسو تھے جو بہائے تھے
کچھ دھوکے تھے جو کھائے تھے
کچھ لہجوں کی پرچھائیاں تھیں
کچھ دل کو روگ لگائے تھے
اب پاس ہمارے کچھ بھی نہیں
اب آس کے مارے کچھ بھی نہیں
بس یادوں کی زنجیریں ہیں
کچھ رنگ اُڑی تصویریں ہیں
کچھ لفظ مٹی تحریریں ہیں
اک دل جو دید کا پیاسا ہے
بس یہی میرا اثاثہ ہے

سنو! تم لوٹ آؤ ناں


ذرا جو دُور جاتے ہو
تب احساس ہوتا ہے
کہ باقی کچھ نہیں رہتا

میرے جیون کے آنگن میں
میری خوشیوں کے دامن میں
تیرے بن کچھ نہیں رہتا

اُداسی چھائی رہتی ہے
سپنے ادھورے سے لگتے ہیں
دن صدیوں سے لگتے ہیں
ان آنکھوں کی جلتی لَو
مدھم پڑنے لگتی ہے
امیدیں مرنے لگتی ہیں

تیرے ہاتھوں سے میرے ہاتھ
اچانک چھوٹ جاتے ہیں
میرے ارمان روتے ہیں
تجھے آواز دیتے ہیں
تجھے واپس بلاتے ہیں

سنو! تم لوٹ آؤ ناں
کہ تم بن ہم ادھورے ہیں

میری قسمت میں بھی ایسا کوئی سجدہ کر دے


میری قسمت میں بھی ایسا کوئی سجدہ کر دے
جو میرے سارے گناہوں کا مداوا کر دے

ساری دنیا سے چرا کر مجھے اپنا کر دے
میری مٹی کو الہٰی سونا کر دے

میں تیرا چاہنے والا ہوں مگر ہے حسرت
جن کو تُو چاہتا ہے، مجھ کو ویسا کر دے

ایک نظر اپنے گناہگار پہ کر کے اے اللٌہ
اپنی رحمت کا طلبگار ہمیشہ کر دے

InshAllah and Ameen

تیرے خوا ب کا لالچ


میں نے
اپنی آنکھوں کو
تیرے خوا ب کا لالچ دے کر
آج
...ایک بار
میرے خواب میں
آجاؤ
کہ
قایم میری آنکھوں کا
اعتبار راہ جائے

کُرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے


کُرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے
آج فُرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے

پھر کسی نظم کی تمہید آُٹھائی جائے
پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے

کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اُترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے

اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہیں، آئینے کو دھویا جائے

موت سے خوفزدہ، جینے سے بیزار ہیں لوگ
اس المیے پہ ہنسا جائے کہ رویا جائے

اے جنون ِعشق بتا ذرا


کبھی غم کی آگ میں جل اُٹھے
کبھی داغ ِدل نے جلا دیا
اے جنون ِعشق بتا ذرا
مجھے کیوں تماشہ بنا دیا؟

غم ِعشق کتنا عجیب ہے
یہ جنوں سے کتنا قریب ہے
کبھی اشک پلکوں پہ رُک گئے
کبھی پورا دریا بہا دیا

بہت مدت کے بعد کل شب


بہت مدت کے بعد کل شب
کتاب ِماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اُترے
بہت سے ناموں پہ دل پسیجا
اک صفحہ ایسا بھی آیا جو
کہ لکھا ہوا تھا بس آنسوؤں سے
عنوان تھا جس کا ’یاد تیری‘
صفحہ وہ سب سے ہی معتبر تھا
خواہشوں کا اک نگر تھا
کچھ اور آنسو اُس پہ ٹپکے
کچھ اور تھوڑا سا دل پسیجا
کتاب ِماضی کو بند کر کے
تیرے خیالوں میں کھو گیا میں
نہ جانے پھر کب سو گیا میں

واسطہ حُسن سے یا شدت ِجزبات سے کیا


واسطہ حُسن سے یا شدت ِجزبات سے کیا
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا

میری مصروف طبیعت بھی کہاں روک سکی
وہ تو یاد آتا ہے، اُسکو میرے دن رات سے کیا

پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے
سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا

آج اُسے فکر کہ کیا لوگ کہیں گے ساغر
کل جو کہتا تھا، مجھے رسم و روایات سے کیا

اؤ بے خبر، تجھے کیا خبر

اؤ بے خبر، تجھے کیا خبر
تیری آنکھوں میں کیسا جمال ہے
تجھے دیکھ لے جو بس اک نظر
اُس کی آنکھ میں پھر یہ سوال ہے

”مجھے نیند سے کیوں جگا دیا؟
مجھے خواب کیسا دکھا دیا؟
کوئی نور ہے، کوئی حور ہے؟
یا کہ سادگی کی مثال ہے؟“

تیری سانس سے میری آس ہے
تُو جو پاس ہے تو یہ سانس ہے
مجھے زندگی کی تو بھیک دے
میری زندگی کا سوال ہے

میری ہر نظر میں بسا ہے تُو
میرے ہر قلم پہ لکھا ہے تُو
تجھے سوچ لوں تو غزل میری
نہ لِکھ سکوں تو خیال ہے

خمار ِشعلہ ِہستی کو جو فنا کر دے


خمار ِشعلہ ِہستی کو جو فنا کر دے
ہمیں وہ زہر ِمحبت کہیں سے لا کر دے

کیا ہے قید تیری قربتوں کے موسم نے
میں تجھ سے دُور رہوں گا، مجھے رہا کر دے

مجھے تھا خوف، کہیں دور تم نہ ہو جاؤ
تمہیں تھا ڈر کہ خدا کم نہ فاصلہ کر دے

یا بخش دے تُو مجھے ہر خوشی زمانے کی
یا میرے غم کو نئی زندگی عطا کر دے

ہزار بار میرا جسم خاک پر تڑپا
اُسے تھی ضد کہ مجھے روح سے جُدا کر دے

یہ چبھن اکیلے پن کی، یہ لگن اُداس شب سے


یہ چبھن اکیلے پن کی، یہ لگن اُداس شب سے
میں ہوا سے لڑ رہا ہوں، تجھے کیا بتاؤں کب سے

یہ سحر کی شازشیں تھیں، کہ یہ انتقام ِشب تھا
مجھے زندگی کا سورج نہ بچا سکا غضب سے

تیرے نام سے شفا ہو، کوئی زخم وہ عطا کر
میرے نامہ بَر ملے تو، اُسے کہنا یہ ادب سے

وہ جواں رُتوں کی شامیں کہاں کھو گئی ہیں محسن
میں تو بجھ کے رہ گیا ہوں، وہ بچھڑ گیا ہے جب سے

تم حقیقت نہیں ھو حسرت ھو

تم حقیقت نہیں ھو حسرت ھو
جو ملے خواب میں وھی دولت ھو
میں تمہارے ھی دم سے زندہ ھوں
مر ھی جاؤں جو تم سے فرصت ھو
تم ھو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ھی بے مروت ھو
تم ھو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ھو
کس طرح تمہیں چھوڑ دوں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ھو
کس لیے دیکھتی ھو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ھو
داستاں ختم ھونے والی ھے
تم مری آخری محبت ھو

تم یاد ہمیں بھی کر لینا

ہو رات اکیلی، پچھلے پہر
اور چاند آنگن میں آ جائے
تم چاند کی مانند تنہا ہو
یہ بات تمہیں تڑپا جائے
کچھ خواب سجا کر پلکوں پہ
تم چاند سے باتیں کر لینا

ہم یاد تمہیں تو کرتے ہیں
تم یاد ہمیں بھی کر لینا

کچھ بات نہ ہو جب، ایسے ہی
نم آنکھ تمہاری ہو جائے
تم بات کہیں پر کرتے ہو
دل اور کہیں پر کھو جائے
جذبات کے ایسے عالم میں
مسکان لبوں پر بھر لینا

ہم یاد تمہیں تو کرتے ہیں
تم یاد ہمیں بھی کر لینا

ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے


ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جاؤں، تُو جواب بھول جائے

کبھی تُو جو پڑھنے بیٹھے، مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں، تُو کتاب بھول جائے

تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے

تُو کسی خیال میں ہو اور اُسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں تُو گلاب بھول جائے

تُو جو دیکھے میری جانب تو بچوں میں اک گناہ سے
تجھے دیکھ لوں میں اتنا کہ شراب بھول جائے

مجھے غم تو دے رہا ہے، اور اُس پہ چاہتا ہے
میں حساب رکھ نہ پاؤں، وہ حساب بھول جائے

اپنی ہر سانس سے مجھ کو تیری خوشبو آئے


جب تصور میرا چپکے سے تجھے چھو آئے
اپنی ہر سانس سے مجھ کو تیری خوشبو آئے

مشغلہ اب ہے میرا چاند کو تکتے رہنا
رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے

جب کبھی گردش ِدوراں نے ستایا مجھ کو
میری جانب تیرے پھیلے ہوئے بازو آئے

جب بھی سوچا کہ شب ِہجر نہ ہوگی روشن
مجھ کو سمجھانے تیری یاد کے جگنو آئے

کتنا حساس میری آس کا سناٹا ہے
کہ خموشی بھی جہاں باندھ کے گھنگرو آئے

مجھ سے ملنے سر ِشام کوئی سایا سا
تیرے آنگن سے چلے اور لب ِجُو آئے

اُس کے لہجے کا اثر تو ہے بڑی بات قتیل
وہ تو آنکھوں سے بھی کرتا ہوا جادو آئے

سُنا ہے اس محبت میں بہت نقصان ہوتا ہے


سُنا ہے اس محبت میں بہت نقصان ہوتا ہے
مہکتا، جھومتا جیون غموں کے نام ہوتا ہے

سُنا ہے، چین کھو کر وہ سحر سے شام روتا ہے
محبت جو بھی کرتا ہے، بہت بدنام ہوتا ہے

سُنا ہے، اس محبت میں کہیں بھی دل نہیں لگتا
بنا اُس کے نگاہوں، میں کوئی موسم نہیں جچتا

خفا جس سے محبت ہو وہ جیون بھر نہیں ہنستا
بہت انمول ہے یہ دل، اُجڑ کر پھر نہیں بستا

محبت پھول ہوتی ہے، کہو تو پھول بن جاؤں


محبت پھول ہوتی ہے، کہو تو پھول بن جاؤں
تمہاری زندگی کا اِک حسیں اصول بن جاؤں

سُنا ہے ریت پہ چل کے تم اکثر مہک جاتے ہو
کہو تو اب کے بار میں زمیں کی دھول بن جاؤں

بہت نایاب ہوتے ہیں جنہیں تم اپنا کہتے ہو
اجازت دو کہ میں بھی اس قدر انمول بن جاؤں

کبھی بارش برستی ہے تو مجھ کو یاد آتا ہے


وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا
”محبت ایک بارش ہے“
سبھی پہ جو برستی ہے
مگر پھر بھی نہیں ہوتی
سبھی کے واسطے یکساں

کسی کے واسطے راحت
کسی کے واسطے زحمت

میں اکثر سوچتا ہوں اب
وہ مجھ سے ٹھیک کہتا تھا

محبت ایک بارش ہے
سبھی پہ جو برستی ہے
کبھی مجھ پہ بھی برسی تھی
مگر میرے لیے بارش
کبھی نہ بن سکی راحت
یہ راحت کیوں نہیں بنتی؟

کبھی میں خود سے پوچھوں تو یہ دل دیتا دُہائی ہے
کبھی کچے مکانوں کو بھی بارش رآس آئی ہے؟

”وفا ہے ذات عورت کی“


وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی
”وفا ہے ذات عورت کی“
مگر جو مرد ہوتے ہیں
بہت بےدرد ہوتے ہیں
کسی بھنورے کی صورت
گُل کی خوشبو لُوٹ جاتے ہیں

سنو!
تم کو میری قسم ہے
روایت توڑ دینا تم
نہ تنہا چھوڑ کے جانا
نہ دل یہ توڑ کے جانا

مگر پھر یوں ہوا محسن
مجھے انجان رستے پر
اکیلا چھوڑ کر اُس نے
میرا دل توڑ کر اُس نے
محبت چھوڑ دی اُس نے

”وفا ہے ذات عورت کی“
روایت توڑ دی اُس نے

حقیقت جان کر ایسی حماقت کون کرتا ہے


حقیقت جان کر ایسی حماقت کون کرتا ہے
بھلا بے فیض لوگوں سے محبت کون کرتا ہے

بتاؤ، جس تجارت میں خسارا ہی خسارا ہو
بنا سوچے خسارے کی تجارت کون کرتا ہے

ہمیں ہی غلط فہمی تھی کسی کے واسطے ورنہ
زمانے کے رواجوں سے بغاوت کون کرتا ہے

خدا نے صبر کرنے کی مجھے توفیق بخشی ہے
ارے جی بھر کے تڑپاؤ، شکایت کون کرتا ہے

کسی کے دل کے زخموں پر مرہم رکھنا ضروری ہے
مگر اِس دور میں ہمدم یہ زحمت کون کرتا ہے

زمانے میں بھی ڈھونڈو گے تو ہم سا ہو نہیں سکتا


زمانے میں بھی ڈھونڈو گے تو ہم سا ہو نہیں سکتا
ہم تو سدا اُسے ہی چاہتے ہیں جو اپنا ہو نہیں سکتا

بہت اُجڑا ہوا دل ہے، مگر اپنا تو عقیدہ ہے
جہاں مہکیں تیری یادیں، وہ صحرا ہو نہیں سکتا

کسی کی یاد اب تک میرے بستر میں سوتی ہے
شب ِتنہائی سے کہہ دو، میں تنہا ہو نہیں سکتا

کچھ تو اپنی بھی خطائیں تھیں، وبال ِزندگی میں
سبھی کچھ تو مقدّر کا لکِھا ہو نہیں سکتا

جُدائی ہو گئی، اور اب بھی دونوں ہی زندہ ہیں
کبھی دونوں ہی کہتے تھے کہ ”ایسا ہو نہیں سکتا“۔

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر


ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی ابھی تو آئے ہو
بہار بن کے چھائے ہو
ہوا ذرا مہک تو لے
نظر ذرا سنبھل تو لے
میں تھوڑی دیر جی تو لوں
نشے کے گھونٹ پی تو لوں
ابھی تو کچھ کہا نہیں
ابھی تو کچھ سُنا نہیں


*جـــواب*
ستارے جھلملا اُٹھے
چراغ جگمگا اُٹھے
بس اب نہ مجھ کو ٹوکنا
نہ بڑھ کے راہ روکنا
اگر میں رُک گیا ابھی
تو جا نہ پاؤں گا کبھی
یہی کہو گے تم سدا
کہ دل ابھی نہیں بھرا
جو ختم ہو کسی جگہ
یہ ایسا سلسلہ نہیں


*التـــجا*
ادھوری آس چھوڑ کے
جو روز یونہی جاؤ گے
تو کس طرح نبھاؤ گے
کہ زندگی کی راہ میں
جواں دلوں کی چاہ میں
کئی مقام آئیں گے
جو ہم کو آزمائیں گے
بُرا نہ مانو بات کا
یہ پیار ہے، گلہ نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں

تیری آنکھیں


بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے، سمندر تیری آنکھیں

پھر بھلا کون دید ِتبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں

اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی شام کا منظر، تیری آنکھیں

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں

یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

وہی اظہار کافی تھا


وہی اظہار کافی تھا
تمہیں اِک دن کہا تھا جو ۔۔۔ کہ
”تم سے پیار کرتے ہیں“

وہ لمحہ بھول کیوں بیٹھے؟
وہ جملہ بھول کیوں بیٹھے؟

اب تم ثبوت مانگو گے
میری بے لوث چاہت کے
تمہیں اِک بار پھر سے وہ
محبت نہ ملے شاید

یہ تم جو روٹھ بیٹھے ہو
تمہاری کم نگاہی ہے
تمہیں اگر پیار کرنا تھا
ہمارے ساتھ چلنا تھا
تو وہ اِک اظہار سُن لیتے
وہی اظہار کافی تھا
تمہیں اِک دن کہا تھا جو ۔۔۔ کہ
تم سے پیار کرتے ہیں

کسی پتھر نما دل پر بھی دستک ہو ہی جاتی ہے


کسی پتھر نما دل پر بھی دستک ہو ہی جاتی ہے
کہ حسرت جاگ جائے تو کرامت ہو ہی جاتی ہے

کسی انجان چہرے سے، کسی پُرلطف لمحے میں
جو کرنا نہ بھی چاہو تو محبت ہو ہی جاتی ہے

کسی خاموش چہرے سے، مسلسل اشک بہنے پر
چھپانا بھی اگر چاہو، وضاحت ہو ہی جاتی ہے

کسی کہ دُور جانے پر امیدیں ٹوٹ جانے سے
وفا میں روگ ملنے کی شکایت ہو ہی جاتی ہے

یہ تم نے بھی سُنا ہوگا، زمانہ ایسے کہتا ہے
کہ جب بھی عشق ہوتا ہے، بغاوت ہو ہی جاتی ہے

نہ بجھا چراغ ِدیار ِدل، نہ بچھڑنے کا تُو ملال کر


نہ بجھا چراغ ِدیار ِدل، نہ بچھڑنے کا تُو ملال کر
تجھے دے گی جینے کا حوصلہ، میری یاد رکھ لے سنبھال کر

یہ بھی کیا کہ اک ہی شخص کو کبھی سوچنا، کبھی بھولنا
جو نہ بجھ سکے وہ دیا جلا، جو نہ ہو سکے وہ کمال کر

غم ِآرزو میری جستجو، میں سمٹ کہ آگیا روبرو
یہ سکُوت ِمرگ ہے کس لیے، میں جواب دوں، تُو سوال کر

تُو بچھڑ رہا ہے تو سوچ ہے، تیرے ہاتھ ہے میری زندگی
تجھے روکنا میری موت ہے، میری بےبسی کا خیال کر

میرے درد کا، میرے ضبط کا، میری بےبسی، میرے صبر کا
جو یقین نہ آئے تو دیکھ لے، تُو ہوا میں پھول اُچھال کر

تمہارے ہاتھ میں اکثر گلابی پھول دیکھا ہے

تمہارے ہاتھ میں اکثر گلابی پھول دیکھا ہے
ہماری راہ میں لیکن بچھانا بھول جاتے ہو

تمہیں تو لوٹ جانے کی ہمیشہ فکر رہتی ہے
مگر جب لوٹ جاتے ہو تو آنا بھول جاتے ہو

سُنا ہے تم ہتھیلی پر ہمارا نام لکھتے ہو
مگر جب ہم سے ملتے ہو، دکھانا بھول جاتے ہو

میری قُربتیں بھی سراب ہیں


میری قُربتیں بھی سراب ہیں
یہ بھلا ہُوا جو ملیں نہیں
تیری دُوریاں بھی عذاب ہیں
میرے دشت ِجاں سے ٹلیں نہیں

پس ِچشم ِنم وہ ضرور ہے
میرا دل جفاؤں سے چُور ہے
میری منزلوں کا قصور ہے
تیرے راستوں سے ملیں نہیں

مجھے خود پہ بس اختیار دے —

میں خزاں میں ہوں تیرا منتظر
مجھے آ کے اپنی بہار دے
مجھے اپنے ہاتھ سے پھول دے
میری زندگی کو سنوار دے

یہ کشمکش سی مجھے کہیں
ہٹا نہ دے میرے مدار سے
میں بکھر رہا ہوں خیالوں میں
مجھے بازؤں کا حصّار دے

مجھے زندگی کی طلب بھی ہے
اور موت کی بھی ہے آرزو
مجھے مضطرب جو کیا ہے اب
مجھے تُو ہی تھوڑا قرار دے

میں نگاہوں میں ہوں، لبوں پہ ہوں
میں دلوں پہ بھی ہوں حکمراں
یہ سب حکومتیں چھین لے
مجھے خود پہ بس اختیار دے —

تمہیں بس اتنا لکھنا ہے

تہمیں معلوم تو ہوگا کہ
دریا پاس بیٹھے ہوں تو کنارہ اچھا لگتا ہے

کناروں سے جُڑی مٹی سے پوچھو روگ چاہت کا
کہ اس پانی کی چاہت میں
کناروں سے اُکھڑ کر
اجنبی دیسوں میں جانا کتنا مشکل ہے
کنارہ پھر نہیں ملتا

تمہیں بس اتنا لکھنا ہے
یہاں جو بھی بچھڑ جائے
دوبارہ پھر نہیں ملتا

پھر پیار کسے تم کہتے ہو؟


خاموش زباں کے لفظوں میں
کچھ پوشیدہ سی باتیں ہیں
ان پوشیدہ سی باتوں میں
کچھ چاہت کی برساتیں ہیں
ان باتوں کو ہم مدّت سے
سینے میں چُھپائے بیٹھے ہیں
کچھ پائے بنا کچھ کھو دینا
یہ پیار میں ہم نے سیکھا ہے
سورج میں، چاند ستاروں میں
ہر شےء میں تم کو دیکھا ہے
دھڑکن میں بھی نغمہ بن کر
ساگر کی طرح تم بہتے ہو
یہ پیار نہیں تو تم ہی کہو
پھر پیار کسے تم کہتے ہو؟

محبت آپ جیسی ہے

مجھے سب لوگ کہتے ہیں
محبت جانتے ہو تم؟
محبت مانتے ہو تم؟

محبت آگ جیسی ہے
جو جلتی ہے تو بجھتی ہے

محبت گیت جیسی ہے
کئی سازوں پہ مبنی ہے

محبت رنگوں کی تتلی
جو خوشبو ڈھونڈ لیتی ہے

مگر کیوں مجھ کو لگتا ہے
یہ سارے لفظ جھوٹے ہیں؟

اگر سچ ہے۔ ۔ ۔
تو بس یہ ہے۔ ۔ ۔
محبت آپ جیسی ہے۔

کبھی گُم سُم
کبھی چنچل
کبھی جگنو
کبھی بادل

کبھی یہ نیند ہے تو
کبھی یہ خواب جیسی ہے

محبت آپ جیسی ہے

کیوں تُو اچھا لگتا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے


کیوں تُو اچھا لگتا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے
تجھ میں کیا کیا دیکھا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے

سارا شہر شناسائی کا دعویدار تو ہے لیکن
کون ہمارا اپنا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے

ہم نے اُس کو لکھا تھا، کچھ ملنے کی تدبیر کرو
اُس نے لکھ کر بھیجا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے

موسم، خوشبو، باد ِصبا، چاند، شفق اور تاروں میں
کون تمہارے جیسا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے

سُنا ہے یاد کرتے ہو

کہ جب شام ڈھلتی ہے
ہجر میں جان جلتی ہے
تم اپنی رات کا اکثر
سکوں برباد کرتے ہو
سُنا ہے یاد کرتے ہو

کہ جب پنچھی لوٹ آتے ہیں
غموں کے گیت گاتے ہیں
”سنو! تم لوٹ آؤ ناں“
یہی فریاد کرتے ہو
سُنا ہے یاد کرتے ہو

ستارے جب فلک پہ جگمگاتے ہیں
وہ بیتے ہوئے پل خوب رُلاتے ہیں
تم اُس دم اپنی آنکھوں میں
مجھے آباد کرتے ہو

سُنا ہے یاد کرتے ہو
مجھے تم یاد کرتے ہو

ابھی اِس طرف نہ نگاہ کر، میں غزل کی پلکیں سنوار لوں


ابھی اِس طرف نہ نگاہ کر، میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
میرا لفظ لفظ ہو آئینہ، تجھے آئینے میں اُتار لوں

میں تمام شب کا تھکا ہوا، تُو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اِسی موڑ پر، تیرے ساتھ شام گزار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اِذن ِقیام ہو
تو میں موتیوں کی دُکان سے تیری بالیاں، تیرے ہار لوں

کچھ اجنبی تیرے شہر کے میرے قریب سے یوں گزر گئے
اُنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی، تیرا نام لے کے پُکار لوں

سہمی سہمی کاجل آنکھیں


سہمی سہمی کاجل آنکھیں
پلکیں جن کا آنچل، آنکھیں

غم کی رات میں ہو جاتی ہیں
اکثر اپنی جل تھل آنکھیں

جانے کیا کیا کہہ جاتی ہیں
چپکے چپکے پاگل آنکھیں

کیسے رنگ بدل لیتی ہیں
لمحہ لمحہ، پل پل آنکھیں

دل ہے آس کا ایک سمندر
جس کی بے کل ساحل آنکھیں

شب بھر جیسے جاگ رہی تھیں
صبح کی بوجھل بوجھل آنکھیں

بنا برکھا کے برس رہی ہیں
رم جھم رم جھم، بادل آنکھیں

پامال ہو گئے تیرے در پر پڑے ہوئے

پامال ہو گئے تیرے در پر پڑے ہوئے
جیسے شجر سے ٹوٹ کے پتے گرے ہوئے

ناقدری ِزمانہ ہمیں معلوم ہے مگر
یاروں سے پھر فضول کے شکّوے گِلّے ہوئے

محرومیوں کے بوجھ سے گردن جھکی ہوئی
ناکامیوں کی گرد سے چہرے اَٹے ہوئے

شاید تمہیں خبر ہو، بتاؤ وہ قافلے
ٹھہرے کہاں تھے، بے سروساماں چلے ہوئے؟

جانے کدھر چلے گئے سارے وہ ہمسفر
ہم راہگزر میں رہ گئے تنہا کھڑے ہوئے

نگاہ ِیار کے پردوں میں ہے پنہاں ادا کیسی

نگاہ ِیار کے پردوں میں ہے پنہاں ادا کیسی
ستم کیسا، کرم کیسا، جفا کیسی، وفا کیسی

یہ جو طوفاں ،سمندر ہیں، یہ سب ہستی کے منظر ہیں
اگر قسمت میں جلنا ہو، دوا کیسی، دُعا کیسی

سُنے گا کون اب مجھ سے تیرے بہروپ کے قصے
مجھے بھی مار کے کر دی کرم کی انتہا کیسی

اگر دل ہار ہی بیٹھے میرے ہمدم محبت میں
فنا کیسی، بقا کیسی، سزا کیسی، جزا کیسی

بہت مدت سے ہم اپنے مقابل سے نہیں ہارے
بُلا لے، ہم بھی دیکھیں گے کہ ہے شام ِقضا کیسی

بھلا کون مرتاہے


کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
ہماری ذات مرتی ہے
ہماری روح روتی ہے

کہ ہم زندہ توہوتے ہیں
مگر دھڑکن کی نگری سے
کوسوں دور ہوتے ہیں
کبھی سانسوں کی گردش کو
پامال کرتے ہیں
کبھی خوشیوں کی دستک کو
تیرگی خیال کرتے ہیں

مگر کوئی پوچھے یہ ہم سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
تمھاراحال کیسا ہے؟
تو ادائے دلبری سے ہم
ہنس کر اس سے کہتے ہیں
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
بھلا کون مرتاہے

یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے


یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے

ہم کو دل نے نہیں* حالات نے نزدیک کیا
دور سے دھوپ میں* ہر شخص شجر لگتا ہے

جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آئیں گے
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے

مجھ سے تو دل بھی محبت میں* نہیں* خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے

وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے

ایک مدت سے مری ماں* نہیں* سوئی تابش
میں*نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

عباس تابش

دریچے کھول دو دل کے


دریچے کھول دو دل کے
غلط فہمی کی مکڑی نے
بڑی سرعت سے اک جالا سا بُن ڈالا
محبت اس کے تاروں میں الجھ کر
ہاتھ پاؤں مار کر بچنے کی کوشش کررہی ہے
ایک مدت سے
وہ ذہنی کشمکش اور کرب
کے اس جال سے
نکلے بھی تو کیسے
وہ کوئی روشنی اپنے دریچوں سے ادھر آنے نہیں دیتا
ہوائے اعتبار و باہمی الفت کے جھونکوں کو
وہ شہرِ دل کی گلیوں میں گزرنے ہی نہیں دیتا
مرے جذبوں کا سچ
فہم و فراست کی فصیلوں سے
اترنے ہی نہیں دیتا
مگر ہر دن کی رو پہلی کرنے سے میں یہ کہتی ہوں
اسے گر ہوسکے تو اب حقیقت آشنا کردو
ذرا گھر کے اندھیروں میں لگے
ان شک کے جالوں میں
وفا کی ایک اس اجلی کرن کو کام کرنے دو
دریچے کھول دو دل کے

اب جو بچھڑے ہیں تو۔۔۔۔۔۔


ہم نے خود اپنے ہی رستے میں بچھائے کانٹے
گھر میں پھولوں کی جگہ لا کر سجائے کانٹے
زخم اس دل میں بسائے ہوئے خود رہتے ہیں
درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
یوں تو دنیا کی ہر اک چیز حسیں ہوتی ہے
پیار سے بڑھ کے مگر کچھ بھی نہیں ہوتی ہے
راستہ روک کے ہر اک سے یہی کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
چار سو گونجتی رسوائی کسے کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو۔۔۔۔۔۔

ہم سے ملتے ہو، بگڑتے ہو، چلے جاتے ہو


ہم سے ملتے ہو، بگڑتے ہو، چلے جاتے ہو
بات کرتے ہو، الجھتے ہو، چلے جاتے ہو

حسن ایسا ہے کہ صدیوں نے بھی دیکھا نہ کہیں
مسکراتے ہو، پلٹتے ہو، چلے جاتے ہو

موقع ملتا ہے ملاقات کا مشکل سے مگر
کیا یہ کرتے ہو، جھگڑتے ہو، چلے جاتے ہو

ایک ہی بات کو پکڑو تو ہمیشہ جاناں
بات بے بات، کلپتے ہو ، چلے جاتے ہو

میں جو کہتا ہوں، کوئی بات بھلے کی خاطر
میری ہر بات، پکڑتے ہو، چلے جاتے ہو

اُس کی خاطر ہی ہوا نام مسافر اظہر
تم بھی ہر بار، اُجڑتے ہو، چلے جاتے ہو

اُنسیت پل کی رفاقت کی عطا ہو شائد


اُنسیت پل کی رفاقت کی عطا ہو شائد
تجھ سے ملنا ہی محبت کی خطا ہو شائد

میں خفا کر کے تجھے چین کبھی پا نا سکا
میرا ہی عکس کہو مجھ سے خفا ہو شائد

بس ترے ہجر میں جلتا ہوں تڑپ جاتا ہوں
اس بھلی شے کا ہی بس نام وفا ہو شائد

دل میں جھانکوں تو تری یاد نظر آتی ہے
میں اسے پیار کہوں، پیار نما ہو شائد

رخ ہوا کا جو ملے اُس پے کھڑا رہتا ہوں
تیرے ہی شہر کی جیسے یہ ہوا ہو شائد

جب ملا مجھ سے کہا عمر ہو لمبی تیری
یہ مرے حق میں تری یار دعا ہو شائد

جو نظر آتا ہے باہر سے جوالا اظہر
تیرے نزدیک یہ بیماری شفا ہو شائد

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔


مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔
مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔

شاعر: فرحت عباس شاہ

گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی


گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کر جانے کے بعد بھی

پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی

گو تو یہاں نہیں ہے مگر تو یہیں ہے
تیرا ہی ذکر ہے تیرے جانے کے بعد بھی

لگتا ہے کچھ کہا ہی نہیں ہے اسے "عدیم"
دل کا تمام حال سنانے کے بعد بھی

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد


تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد

شاعر: فرحت عباس شاہ

کوئی بات ایسی کیا کرو، کوئی لفظ ایسا لکھا کرو


کوئی بات ایسی کیا کرو، کوئی لفظ ایسا لکھا کرو
ملے جس سے دل کو قرار سا، کوئی شعر ایسا پڑھا کرو

سدا دکھ میں ہی نہ رکھا کرو، کبھی سکھ بھی اس کو دیا کرو
یہ اداس ھے کئی روز سے، مرے دل میں آ کے رہا کرو

جوکٹھن کٹھن سے ہیں راستے یہ سبھی ہیں کیوں مرے واسطے
یہ جو جل رہاہوں میں آگ میں کبھی تم بھی اس میں جلا کرو

مجھے اب تمہاری ھی آس ھے، مرا دل تمہارے ھی پاس ھے
ھے یہ جان تیرے حصار میں اسے میری جان رِہا کرو

مرا دن ھو یا مری رات ھو، ترے ہاتھ میں مرا ہاتھ ھو
ابھی جیسے تم مرے ساتھ ھو، یونہی ساتھ میرے چلا کرو

زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے


زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے
پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے

اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں
پلک پلک میں تیری یاد کو پرونا ہے

یہی کہ سلسلہ نارسائی ختم نہ ہو
سو جس کو پانہ سکے ہم، اسی کو کھونا ہے

جو لفظ کھل نہ سکیں آئینے پہ، مٹی ہیں
جو بات دل پہ اثر کرسکے، وہ سونا ہے

تو اس کو توڑنا چاہے تو توڑ سکتا ہے
کہ زندگی ترے ہاتھوں میں اک کھلونا ہے

بس ایک چشم سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب
یہ خواب، خواب نہیں اوڑھنا بچھونا ہے

سفر ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی
یہ بار بھی اسی عمر رواں کو ڈھونا ہے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے


شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

اسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے


اسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہوجاٰئیں
تو پھر پگھلا نہیں کرتے
پرندے ڈر کر اڑ جائیں
تو پھر لوٹا نہیں کرتے
یقیں اک بار اٹھ جائے
کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفاں
بارش نہیں لاتا
اسے میں نے ہی لکھا تھا
جو شیشہ ٹوٹ جائے تو
کبھی پھر جڑ نہیں پاتا
جو راستے سے بھٹک جائیں
وہ واپس مڑ نہیں پاتا
اسے کہنا وہ بے معنی ادھورے خط
اسے میں نے ہی لکھا تھا
اسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے

Wednesday, November 9, 2011

خواب مرتے نہیں


خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مرجائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں، نوَا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھُکتے نہیں
روشنی اور نوَا اور ہوا کے علَم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھُکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

احمد فراز

خوں بہا


اپنے شہسواروں کو
قتل کرنے والوں سے
خوں بہا طلب کرنا
وارثوں پہ واجب تھا
قاتلوں پہ واجب تھا
خوں بہا ادا کرنا
واجبات کی تکمیل
منصفوں پہ واجب تھی
(منصفوں کی نگرانی
قدسیوں پہ واجب تھی)
وقت کی عدالت میں
ایک سمت مسند تھی
ایک سمت خنجر تھا
تاج زرنگار اک سمت
ایک سمت لشکر تھا
اک طرف مقدر تھا
طائفے پکار اٹھے
"تاج و تخت زندہ باد"
"ساز و رخت زندہ باد"
خلق ہم سے کہتی ہے
سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشم نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں!

افتخار عارف

دستِ قاتِل


یہ اُنگلیاں بُھوک سے بِلبلاتے بچوں کے
حلقوم میں گڑی ہیں
یہ دستِ قاتِل ہے جس کی نس نس میں اُس کے
آقا کی بیڑیاں پڑی ہیں
اب اُس کے آقا نے حُکم شاہی سُنا دیا ہے، بتا دیا ہے
ابھی یہ مخلُوق جانکنی کے عذاب سہہ کے بھی پل رہی ہے
ابھی اُمیدیں مچل رہی ہیں، ابھی تلک نبض چل رہی ہے
ہوا کے جھونکوں میں زہر بھر دو، یہ زندگانی تمام کر دو
اب اُس کے آقا نے حُکمِ شاہی سُنا دیا ہے کہ
باج لاؤ، خراج لاؤ، یا ویٹ لاؤ
تمام دولت سمیٹ لاؤ
نہتی مخلُوق کو بھنبھوڑو، گُلاب نسلوں کو بُھون لاؤ
تمام کھیتوں میں بُھوک بو کر
بِلکتے بچوں کا خُون لاؤ

خُورشید انور

زوالِ آدم


دورِ حاضر ہے ترقی یافتہ
اِس لئے اب جانتا ہے
کوکھ میں مادر کے پوشیدہ ہے کیا
لمحہ بھر میں جِنس کو پہچان لے
اور جب معلوم ہو لڑکی ہے یہ
بطنِ مادر میں کرے تولید سے پہلے فنا
یہ جہالت ہے ترقی یافتہ
آج جس رفتار سے سائنس کا ہے اِرتقاء
بس اِسی انداز سے گمراہ بھی ہے آدمی
آدمیّت کا یہاں بدخواہ بھی ہے آدمی

میری بے بسی کا تو غم نہ کر ... تیرا ہجر مجھ کو قبول ہے


تیرا ہجر تیرا وصال بھی
تیرے خواب تیرے خیال
میری تشنگی نہ بُجھا سکے
تیری یاد کو نہ مِٹا سکے
میں یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی
تیرے ہجر میں میری زندگی
نہ ہی رنگ ہے، نہ ہی روپ ہے
نہ یہ چھاؤں ہے، نہ ہی دھوپ ہے
نہ خوشی ہے نہ ہی ملال ہے
یہ بس اک تشنہ سوال ہے
وہ رفاقتوں کے سفر سبھی
میری گفتگو کے ہنر سبھی
تیرے ہجر کے جو نذر ہوئے
سبھی خواب گردِ سفر ہوئے
وہ جو خواب تھے وہ گزر گئے
جو ملا ہے یہی نصیب ہے
تیرا ساتھ تو کہیں کھو گیا
تیرا ہجر میرے قریب ہے
تیرے ہجر کا یہ ہر اک پل
میری عمر بھر کا حصول ہے
میری بے بسی کا تو غم نہ کر
تیرا ہجر مجھ کو قبول ہے

ادھُورا ہے جیون... یہ تیرے بِنا


ادھُورا ہے جیون یہ تیرے بِنا
مگر سوچتا ہوں
محبت کی لہر میں
محبت کا دریا
مری آرزوؤں کے ساحل کی کشتی
ڈبو ہی نہ ڈالے
مرے دِل میں دُکھ کو
سمو ہی نہ ڈالے
ادھُورے سے جیون میں
تم تو نہیں ہو
مگر یہ بھی کافی ہے
یادیں تو ہیں تیری
خوابوں کی صورت
عذابوں کی صورت

گل نوخیز اختر

سِلسلہ


خوابوں میں تُو نے آ کر
اور نیند سے جگا کر
آنکھوں کی پُتلیوں میں
اِک عکس لا بِٹھایا
کچھ اِس طرح میں کھویا
پھر رات بھر نہ سویا

کاشف رحمٰن کاشف

سمندر کی آنکھوں میں دکھ بھر چکا ہے


سمندر کی آنکھوں میں دکھ بھر چکا ہے
سمندر !
تری آنکھ میں
کروٹیں بھرتا یہ نیلمی حسن کس نے بھرا ہے
کہ تُو آج تک اُس کی دوری کے دکھ میں
کئی لاکھ صدیوں سے
اپنے بدن میں مقےّد ہے
اور جاں کنی کے عذابوں سے اُلجھا ہوا ہے
سمندر !
کئی لاکھ صدیوں کی اِس بے کلی نے
تری جاں کنی کے عذابوں کو
اور اُس کی دوری کے بوڑھے دکھوں کو
تری اِس محیط اور بسیط آنکھ میں
آنسوئوں کی طرح بھر دیا ہے !
ازل سے تری اِس تڑپتی ہوئی مضطرب آنکھ کا دُکھ
گھنے بادلوں کی وساطت سے
اُس تک رسائی کے صدمے
اُٹھاتا رہا ہے
ترے ساتھ مجھ کو رُلاتا رہا ہے
مرے سب کے سب اشک تیرے لئے ہیں
مگر اے سمندر !
بتا
کیا تری آنکھ کے سارے یاقوت و مرجان
اُس کے لئے ہیں
کہ جس نے تجھے دُور رکھ کر
تری آنکھ میں جان لیوا نشہ بھر کے
بے چینیوں کے عذابِ مسلسل میں رکھا ہوا ہے ؟
سمندر ! تجھے تو ازل سے میں پہچانتا ہوں
مگر کچھ بتا
وہ ترا ''رازداں ''کون ہے
جو کہ سینے میں تیرے
ازل سے کسی غیب کے راز کی طرح مدفون ہے ۔

جــــــانے کــــــس کے آنـســــــو ہیـــں


ســــــاون کــــــی بنیــــــاد مــــــیں

جــــــانے کــــــس کے آنـســــــو ہیـــں

صــــــدیوں پہــــــلے جانے کــــــوئی

صــــــدیوں بیــــــٹھ کــــــے رویا تھــــــا

وفا اور بے وفائی میں جو قدرِ مشترک ہے


وفا اور بے وفائی میں جو قدرِ مشترک ہے
اب اسے معلوم کرنا ہے
اگر"لا" کے مساوی تم ہو
اور میں کیفِ بیش و کم کی منزل میں معلق ہوں
تو ایسا ہے
کہ اب کچھ نسبتیں تبدیل ہونی ہیں
ذرا سی کسر باقی ہے
ہمیں اک دوسرے کو بھول جانے میں
ذرا سی دیر باقی ہے
ہمیں اک دوسرے کو بے وفا کہہ کر
کہیں تازہ وفا کے خار و خس دریافت کرنے میں

فراق صدیوں پہ چھا گیا نا، وہی ہوا نا


فراق صدیوں پہ چھا گیا نا، وہی ہوا نا
وصال لمحہ چلا گیا نا، وہی ہوا نا
کہا تھا چاہت کا وار سہہ کر جیو گے کیسے
یہ گھاؤ اندر سے کھا گیا نا، وہی ہوا نا
مدامِ گردش میں دل کو رکھنے کا ہے نتیجہ
پھر اُس کی چوکھٹ پہ آ گیا نا، وہی ہوا نا
تمہیں یہ کس نے کہا تھا دن میں ہی خواب دیکھو
وہ خواب نیندیں چُرا گیا نا، وہی ہوا نا
جسے سمندر کہا تھا تم نے، کہاں گیا وہ
وہ تم کو آنسو رلا گیا نا، وہی ہوا نا
بتول کتنا کہا تھا اُس کو مت آزماؤ
وہ روگ پھر سے لگا گیا نا، وہی ہوا نا

کتنی صدیوں سے تنِ زار تھا صحرا کی طرح


کتنی صدیوں سے تنِ زار تھا صحرا کی طرح
آندھیاں اتنی حوادث کی چلیں رستوں میں
دور تک ۔۔۔ دور تلک اڑنے لگی دھول ہی دھول
زرد رُو ریت سے سب مٹتے گئے نقشِ قدم
کھو گئے راستے ۔۔۔ گم ہو گیا ہر ایک سراب
بجھ گئے خاک سے سب منزلِ ہستی کے نشاں

اب اگر ابرِ تمنائے وفا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں

ایک مدت سے مرے دل کا چمن ویراں تھا
گُل نہ کھلتے تھے ۔۔۔ شجر جھوم کے لہراتے نہ تھے
کتنے خوش لحن پرندے تھے تمنا کے یہاں
وہ اداسی تھی کہ اک نغمۂ دل گاتے نہ تھے
کیا یہاں سبزۂ خوش رنگ کی ہوتی امید
اس زمیں پر تو نمو کا بھی نہیں تھا امکاں

اب اگر معجزۂ بادِ صبا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں

کتنی راتوں سے شبستانِ محبت میں یہ خاموشی تھی
اتنی تاریک خموشی کہ نہ جلتی تھی کوئی شمعِ صدا
تن فسردہ تھا بہت ۔۔۔ دل مرا تنہا تھا بہت
چشمِ حیرانی مگر دیر تلک جاگتی تھی
دیر تک جاگتی تھی ۔۔۔ خواب میں گُم رہتی تھی

پردۂ خواب پہ تصویر کے پیکر میں نہاں
خوشبو و روشنی و صوت و صدا کی صورت
اب تم آئے ہو تو کچھ دیر کو ٹھہرو مری جاں

جانتی ہوں کہ کہاں ابرِ وفا، موجِ صبا، صوت و صدا
دیر تک ایک جگہ ٹھہرے ہیں
جانتی ہوں کہ ہر اک وصلِ دلآرام کے بعد
تن پہ اُس ہجرِ ستم گر کے نشانات بہت گہرے ہیں

کسی کو الوداع کہنا بہت تکلیف دیتا ہے


کسی کو الوداع کہنا
بہت تکلیف دیتا ہے
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
یقیں پر بے یقینی کا کچھ ایسا کہر چڑھتا ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا ، سجھائی کچھ نہیں دیتا
دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں
کسی خواہش کے اندیشے
ذہن میں دوڑ جاتے ہیں
گماں کچھ ایسا ہوتا ہے
کے جیسے مل نہ پائیں گے
یہ گہرے زخم فرقت کے ، کسی سے سل نہ پائیں گے
کبھی ایسا بھی ہو یا رب
دعائیں مان لیتا ہے
تو کوئی معجزہ کر دے ، تو ایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ انہیں تو بھر بھی سکتا ہے
جدائی کی یہ تیکھی دھار دلوں کا خوں کرتی ہے
جدائی کی اذیت سے
میرا دل اب بھی ڈرتا ہے
جدائی دو گھڑی کی ہو تو کوئی دل کو سمجھائے
جدائی چار پل کی ہو تو کوئی دل کو بہلائے
جدائی عمر بھر کی ہو
تو کیا چارہ کرے کوئی
کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جئے کوئی
مرے مولا کرم کر دے تو ایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ ، اِنہیں تو بھر بھی سکتا ہے

وہی گلیاں، وہی کُوچے، وہی سردی کا موسم ہے

وہی گلیاں، وہی کُوچے، وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نظامِ زیست برہم ہے
یہ حُسنِ اتفّاق ایسا کہ نکھری چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی ، تشنگی سی ہے
وہی ہے بھیڑ سوچوں کی وہی تنہائیاں پھر سے
مجھے سب یاد ہے، کچھ سال پہلے کا یہ قصّہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصّہ ہے
میری آنکھوں میں وہ اک لمحئہ موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے
کسی نے رات کی تنہائیوں میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں
کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا
چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشا تھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنوان دیا تھا میرے خوابوں کو
میرے شعروں میں وہ اِلہام کی صورت اُترا تھا
معنی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا
وہ جس کے ہونے سے زندگی نغمہ سرائی ہے
اُسے کہنا کہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے ۔۔۔

کِسے خبر ہے



کِسے خبر ہے
میں آج خُوش ہوں
کہ رسمِ دُنیا نِبھا رہا ہوں
چراغاں کر کے تمام گھر میں
میں گیت خُوشیوں کے گا رہا ہوں
اکیلے پَن کی اذیتوں میں
یہ جشن کیسا منا رہا ہوں
کِسے خبر ہے
کہ دِل کی دُنیا
تمام رسموں سے ماورا ہے
یہ گھر ہے روشن
مگر یہ دِل تو بُجھا ہُوا ہے

کوئ موسم تو ایسا ہو


کوئ موسم تو ایسا ہو
کہ جب بچھڑے ہوؤں کی یاد کے جگنو
چمک کھو دیں ۔۔۔
کسی کے ہجر میں رونے سے پہلے ہی
میری آنکھیں ۔۔۔ کبھی سو دیں ۔۔۔
کوئ موسم تو ایسا ہو کہ جب سب پھول الفت کے
کسی اَنمٹ محبّت کے
میرے دل میں کھلیں
پر
ان میں وہ خوشبو نہ ہو باقی
“وہ خوشبو ، جو تمہارے قُرب میں مِحسوس ہوتی تھی “

کوئ موسم تو ایسا ہو
کہ دل کے زخم بھر جائں
اگر ایسا نہیں ہوتا
تو پھر کتنا ہی اچھا ہو کہ
ساری خواہشیں دل کی
وہ سارے خواب اور ارماں
یونہی گھُٹ گھُٹ کے مر جائں
مجھے آزاد کر جائں ۔۔۔
کو ئ موسم تو ایسا ہو کہ وہ موسم تمہاری یاد کا موسم نا ہو

مُٹھّی بھر ریت


بے کراں دشت کی ساخت میں
دُھوپ جب جسم چاٹنے لگ جائے
دل کا دریا بھی سُوکھنے لگ جائے
اُس گھڑی
خود کو مجتمع کرنا
اس کے چہرہ کو دھیان میں لانا
اور پھر
ریت بھر کے مُٹھّی میں
اپنی آنکھوں کو باوضو کرنا
اپنے چہرے کو قبلہ رو کرنا
دُھوپ کا زور ٹوٹ جائے گا
بے کراں دشت کی ساخت میں
زندگی کا پیام آئے گا

امتیاز ساغر

مجھے اب وہ نہیں کہتی ، محبت کچھ نہیں ہوتی


مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
ہجر کا خوف بے مطلب ، وصل کے خواب بے معنی
کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے
اُسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسو بے زُباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یاد کے طوفاں اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے
کہ اُس کی جھیل آنکھوں میں ہجر کا خوف رہتا ہے
وصل کے خواب رہتے ہیں وہی برسات رہتی ہے
یہ عادت ہے کی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یہ لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اُس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں
اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی ، محبت کچھ نہیں ہوتی
کہ ہر دیوار پر اب وہ کسی کا نام لکھتی ہے

مجھے تم کیا بتاؤ گی؟


مجھے تم کیا بتاؤ گی؟
کہ جب سے مجھ سے بچھڑی ہو
بہت بے چین رہتی ہو
مری باتیں ستاتی ہیں
مرے لفظوں کے جگنو!
ایک پل اوجھل نہیں ہوتے
مری نظمیں رُلاتی ہیں
مری آنکھیں جگاتی ہیں
مجھے تم کیا بتاؤ گی
کہ تم نے بارہا اُن اجنبی چہروں کے جنگل میں
مرے چہرے کو ڈھونڈا ہے
کسی مانوس لہجے پر
کسی مانوس آہٹ پر
پلٹ کر ایسے دیکھا ہے
کہ جیسے تم مری موجودگی محسوس کرتی ہو!
مجھے تم کیا بتاؤ گی!
کہ کتنی شبنمی شامیں
ٹہلتے سوچتے گذریں
کہ کتنی چاندنی راتیں
دعائیں مانگتے گذریں
کہ کتنے اشک ایسے تھے
جو گرتے ہی رہے دل میں
مجھے تم کیا بتاؤ گی
مری جاں! میں سمجھتا ہوں
تمہاری اَن کہی باتیں
کہ میں اِن موسموں کے ایک اک رستے سے گذرا ہوں
میں اب بھی لفظ چنتا ہوں
میں اب بھی اشک بُنتا ہوں
کہ جب سے تم سے بچھڑا ہوں
تمہاری ذات پر گذرے
میں ہر موسم میں رہتا ہوں
تو پھر تم کیا سناؤ گی
مجھے تم کیا بتاؤ گی

محبت آخرش ہے کيا؟


ميں شاعر ہوں تو اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہيں
محبت آخرش ہے کيا؟
وصي ميں ہنس کے کہتا ہوں
کسي پياسے کو اپنے حصے کا پاني پلانا بھي محبت ہے
بھنور ميں ڈوبتے کو ساحلوں تک لے کے جانا بھي محبت ہے
کہيں ہم، راز سارے کھول سکتے ہوں مگر پھر بھي
کسي کي بے بسي کو ديکھ کر خاموش رہ جانا محبت ہے
کسي کے واسطے جبراً ہي ہونٹوں پر ہنسي لانا محبت ہے
کہيں بارش ميں ميں سہمے، بھيگتے بلي کے بچے کو
ذرا سي دير کو گھر لے کے آنا بھي محبت ہے
کوئي چڑيا جو کمرے ميں بھٹکتي آن نکلي ہو تو اس چڑيا کو
پنکھے بند کر کے راستہ باہر کا دِکھلانا محبت ہے
محبت کے ہزاروں رنگ، لاکھوں استعارے ہيں
کسي بھي رنگ ميں ہو يہ
مجھے اپنا بناتي ہے
يہ ميرے دل کو بھاتي ہے

محبت آخری منزل ..محبت آخری سایہ


بہت گھومی جہاں بھر میں
مجھے آوارگی لے کر
کبھی صحرا سمندر میں
کبھی دُنیا کے میلوں میں
کبھی جنگل میں بھٹکایا
عجب وحشت لہو میں تھی
نظر بھی جستجو میں تھی
کئی چہرے تھے آنکھوں میں
انہیں چہروں کی خواہش میں
ہر اِک منزل کو ٹھکرایا
سکوں پھر بھی نہیں پایا
بہت گھوما جہاں بھر میں
تو پھر آخر کھُلا مجھ پر
وہ جس کو چھوڑ آیا تھا
میں اپنے ہجر میں جلتا
وہی سچی محبت تھی
اُسی کی یاد کے موتی
بنے جیون کا سرمایہ
محبت آخری منزل
محبت آخری سایہ

نوید ہاشمی

محبت تم نے کب کی ہے؟


محبت تم نے کب کی ہے؟
محبت میں نے کی ہے
جانِ جاں تم سے
تمہا ری آرزو سے
جس کے ریشم سے تمہا ری
سرمئی خوشبونے
گرہیں باند ھ رکھی ہیں
یہ گر ہیں ہاتھ کی پوروں میں آکر
پھسلتی ہیں مگر کھلتی نہیں جا ناں
طلسمِ خامشی ٹوٹے تویہ
یہ گرہیں بھی کھل جائیں
جو آنکھیں ہجر کی مٹی میں مٹی
ہو رہی ہیں
وہ بھی دُھل جا ئیں
ایوب خاور

محبت تو بارش ہے


محبت تو بارش ہے
جسے چھونے کی خواہش میں
ہتھیلیاں گیلی ہو جاتی ہیں
مگر ہاتھ ہمیشہ خالی ہی رہتے ہیں

محبت حرفِ اول ہے


محبت حرفِ اول ہے
محبت حرفِ آخر ہے
یہ ہے اک ایسا جذبہ جو
ظہور اپنے میں ماہر ہے
زمانے میں اداسی بھی
محبت بانٹ سکتی ہے
کسی کے دل سے نفرت کو
محبت چھانٹ سکتی ہے

محبت باوفا بھی ہے
محبت دل ربا بھی ہے
محبت کرنے والوں کو
محبت سے گلہ بھی ہے
محبت میں جو ہوتے ہیں
گلے وہ سب محبت ہیں
لگن چاہت وفاداری
یہ سارے ڈھب محبت ہیں
محبت آن جیسی ہے
محبت مان جیسی ہے
محبت پھول جیسی ہے
محبت جان جیسی ہے
محبت جان لیتی ہے
محبت جان دیتی ہے
محبت سرفروشی کو
ہمیشہ مان لیتی ہے

محبت اک تبسّم ہے
جو پھولوں میں بھی کھلتا ہے
کبھی تتلی کے پنکھوں میں
کبھی ممتا میں ملتا ہے
محبت سانس لیتی ہے
محبت دیکھ سکتی ہے
محبت ساتھ چلتی ہے
محبت رہ بدلتی ہے
کسی کی شادمانی کو
محبت سوچ سکتی ہے
یہ ساری زندگانی کے
غموں کو نوچ سکتی ہے
محبت اک نگینہ ہے
یہ جینے کا قرینہ ہے
نہیں جو ڈوبنے پاتا
محبت وہ سفینہ ہے

جہاں کے سب مذاہب میں
محبت کا تقدّس ہے
یہی انساں کے جذبوں میں
عطا سب سے مقدس ہے
محبت کا یہ جذبہ اب
بڑا پامال ہوتا ہے
یہ جس کے دل میں بس جائے
بہت بے حال ہوتا ہے
محبت کل بھی ہوتی تھی
محبت اب بھی ہوتی ہے
مگر اپنے مقدر پر
محبت آج روتی ہے

کہا تھا ناں ۔۔۔؟


کہا تھا ناں ۔۔۔؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی
کہیں بھی تم چلے جاؤ
کسی کے بھی تم بنو اور جس کسی کو چاہے اپناؤ
ہماری یاد سے پیچھا چُھڑانا،
اِس قدر آساں نہیں *جاناں!
کہا تھا ناں؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی

مُحبت جانتی ہے، کون سا دِل ہے گداز اتنا


مُحبت جانتی ہے، کون سا دِل ہے گداز اتنا
اسے کس دِل میں بسنا ہے
یہ کشتی جانتی ہے
کون سے طُوفاں گُزر کر کِس جزیرے جا کے لگنا ہے
یہ ایسی پیاس ہے، جو جانتی ہے کون سے ہونٹوں پہ رُکنا ہے
یہ وہ قطرہ ہے شبنم کا
جِسے معلوم ہے کِس پُھول میں خُوشبو رچانی ہے
مُحبت جانتی ہے کب کہاں زُلفوں کی چھاؤں عام کرنی ہے
مُحبت جانتی ہے کِس گلی میں شام کرنی ہے
مُحبت جانتی ہے کہ یہ تیشہ کون سے ہاتھوں تھمانا ہے
کہاں شیریں کو رکھنا ہے، کہاں فرہاد لانا ہے
کہاں کب طُور کو جلنا ہے، کب موسیٰ کو آنا ہے
مُحبت انتہا پر جب پہنچ جاتی ہے تو پھر
کسی تفریق کی قائل نہیں رہتی
کہاں پردہ گِرانا ہے، کہاں پردہ اُٹھانا ہے
کہ کِس کی دِید کرنی ہے، کِسے جلوہ دِکھانا ہے
شبِ مِعراج کِس کو کِس طرح پاس اپنے عرشوں پر بُلانا ہے

نادر دُرّانی

جذبہ ہے یا جذبے سے یہ کوئی ماورأ شے ہے


جذبہ ہے یا جذبے سے یہ کوئی ماورأ شے ہے
خدا جس نے اسے پیدا کیا ہے جانتا ہے
کوئی اُلجھی کہانی ہے
کہ جس کی ابتدأ انجام کے منظر سے ہوتی ہے
اِک ایسا راز
جس کی کھوج میں جو بھی گیا ہے، لوٹ کر آیا نہیں ہے
بہت سے کوزہ گر مٹّی کی ڈھیری سے
اِسی اک لفظ کی تجسیم کرتے ہیں
بہت سے ہاتھ ہوں جو بس
اِسی اک لفظ کی خاطر
روایت کو نبھا کر
پتھروں سے دیوتا تخلیق کرتے ہیں
بہت سی اُنگلیاں سازوں کے پردوں سے
اِسی اِک لفظ کی دُھن کو بجاتی ہیں
بہت سی رُوح کی گہرائیوں سے پیدا ہونے والی آوازیں
اِسی اِک لفظ کو موجِ ہوا میں گُنگناتی ہیں
مگر پھر بھی محبت اِک معمّہ ہے
پہیلی ہے، فسانہ ہے
خدا جس نے اِسے پیدا کیا ہے، جانتا ہے
محبت کے اسی اک لفظ کی تبلیغ کی خاطر
بہت سی برگذیدہ ہستیاں دھرتی پہ اُتری ہیں
بہت سے لوگ لکھتے آ رہے ہیں کتنی صدیوں سے
اِسی اِک لفظ کی تفسیر میں
کتنے مصوّر اپنے رنگوں کو زباں دینے کو کوشاں ہیں
مگر پھر بھی محبت اِک معمّہ ہے
پہیلی ہے
فسانہ ہے
خدا جس نے اسے پیدا کیا ہے
جانتا ہے

محبت ہمسفر میری


کٹھن ہے زندگی کتنی
سفر دشوار کتنا ہے
...کبھی پاؤں نہیں چلتے
...کبھی رستہ نہیں ملتا
ہمارا ساتھ دے پائے
کوئی ایسا نہیں ملتا
فقط ایسے گزاروں تو
یہ روز و شب نہیں کٹتے
یہ کٹتے تھے کبھی پہلے
مگر ہاں اب نہیں کٹتے
مجھے پھر بھی میرے مالک
کوئی شکوہ نہیں تجھ سے
میں جاں پر کھیل سکتی ہوں
میں ہر دکھ جھیل سکتی ہوں
اگر تو آج ہی کر دے
محبت ہمسفر میری