خمار ِشعلہ ِہستی کو جو فنا کر دے
ہمیں وہ زہر ِمحبت کہیں سے لا کر دے
کیا ہے قید تیری قربتوں کے موسم نے
میں تجھ سے دُور رہوں گا، مجھے رہا کر دے
مجھے تھا خوف، کہیں دور تم نہ ہو جاؤ
تمہیں تھا ڈر کہ خدا کم نہ فاصلہ کر دے
یا بخش دے تُو مجھے ہر خوشی زمانے کی
یا میرے غم کو نئی زندگی عطا کر دے
ہزار بار میرا جسم خاک پر تڑپا
اُسے تھی ضد کہ مجھے روح سے جُدا کر دے