فراق صدیوں پہ چھا گیا نا، وہی ہوا نا
وصال لمحہ چلا گیا نا، وہی ہوا نا
کہا تھا چاہت کا وار سہہ کر جیو گے کیسے
یہ گھاؤ اندر سے کھا گیا نا، وہی ہوا نا
مدامِ گردش میں دل کو رکھنے کا ہے نتیجہ
پھر اُس کی چوکھٹ پہ آ گیا نا، وہی ہوا نا
تمہیں یہ کس نے کہا تھا دن میں ہی خواب دیکھو
وہ خواب نیندیں چُرا گیا نا، وہی ہوا نا
جسے سمندر کہا تھا تم نے، کہاں گیا وہ
وہ تم کو آنسو رلا گیا نا، وہی ہوا نا
بتول کتنا کہا تھا اُس کو مت آزماؤ
وہ روگ پھر سے لگا گیا نا، وہی ہوا نا