دریچے کھول دو دل کے
غلط فہمی کی مکڑی نے
بڑی سرعت سے اک جالا سا بُن ڈالا
محبت اس کے تاروں میں الجھ کر
ہاتھ پاؤں مار کر بچنے کی کوشش کررہی ہے
ایک مدت سے
وہ ذہنی کشمکش اور کرب
کے اس جال سے
نکلے بھی تو کیسے
وہ کوئی روشنی اپنے دریچوں سے ادھر آنے نہیں دیتا
ہوائے اعتبار و باہمی الفت کے جھونکوں کو
وہ شہرِ دل کی گلیوں میں گزرنے ہی نہیں دیتا
مرے جذبوں کا سچ
فہم و فراست کی فصیلوں سے
اترنے ہی نہیں دیتا
مگر ہر دن کی رو پہلی کرنے سے میں یہ کہتی ہوں
اسے گر ہوسکے تو اب حقیقت آشنا کردو
ذرا گھر کے اندھیروں میں لگے
ان شک کے جالوں میں
وفا کی ایک اس اجلی کرن کو کام کرنے دو
دریچے کھول دو دل کے