وہی گلیاں، وہی کُوچے، وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نظامِ زیست برہم ہے
یہ حُسنِ اتفّاق ایسا کہ نکھری چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی ، تشنگی سی ہے
وہی ہے بھیڑ سوچوں کی وہی تنہائیاں پھر سے
مجھے سب یاد ہے، کچھ سال پہلے کا یہ قصّہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصّہ ہے
میری آنکھوں میں وہ اک لمحئہ موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے
کسی نے رات کی تنہائیوں میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں
کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا
چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشا تھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنوان دیا تھا میرے خوابوں کو
میرے شعروں میں وہ اِلہام کی صورت اُترا تھا
معنی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا
وہ جس کے ہونے سے زندگی نغمہ سرائی ہے
اُسے کہنا کہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے ۔۔۔