جب تصور میرا چپکے سے تجھے چھو آئے
اپنی ہر سانس سے مجھ کو تیری خوشبو آئے
مشغلہ اب ہے میرا چاند کو تکتے رہنا
رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے
جب کبھی گردش ِدوراں نے ستایا مجھ کو
میری جانب تیرے پھیلے ہوئے بازو آئے
جب بھی سوچا کہ شب ِہجر نہ ہوگی روشن
مجھ کو سمجھانے تیری یاد کے جگنو آئے
کتنا حساس میری آس کا سناٹا ہے
کہ خموشی بھی جہاں باندھ کے گھنگرو آئے
مجھ سے ملنے سر ِشام کوئی سایا سا
تیرے آنگن سے چلے اور لب ِجُو آئے
اُس کے لہجے کا اثر تو ہے بڑی بات قتیل
وہ تو آنکھوں سے بھی کرتا ہوا جادو آئے