ابھی اِس طرف نہ نگاہ کر، میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
میرا لفظ لفظ ہو آئینہ، تجھے آئینے میں اُتار لوں
میں تمام شب کا تھکا ہوا، تُو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اِسی موڑ پر، تیرے ساتھ شام گزار لوں
اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اِذن ِقیام ہو
تو میں موتیوں کی دُکان سے تیری بالیاں، تیرے ہار لوں
کچھ اجنبی تیرے شہر کے میرے قریب سے یوں گزر گئے
اُنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی، تیرا نام لے کے پُکار لوں