ادھُورا ہے جیون یہ تیرے بِنا
مگر سوچتا ہوں
محبت کی لہر میں
محبت کا دریا
مری آرزوؤں کے ساحل کی کشتی
ڈبو ہی نہ ڈالے
مرے دِل میں دُکھ کو
سمو ہی نہ ڈالے
ادھُورے سے جیون میں
تم تو نہیں ہو
مگر یہ بھی کافی ہے
یادیں تو ہیں تیری
خوابوں کی صورت
عذابوں کی صورت
گل نوخیز اختر