تمہارے نام و نشاں سے بےسرو کار
تمہاری یاد کے موسم گذرتے جاتے ہیں
بس ایک منظر بےہجر و وصل ہے جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں
نہ وہ نشاطِ تصور کہ لو تم آہی گئے
نہ زخم ِدل کی ہے سوزش کوئی جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں جو کہنی ہو
نہیں جو محملِ لیلائے آرزو سرِراہ
تو اب فضا میں فضا کے سوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیم پیام
تو اب صبا میں صبا کے سوا کچھ اور نہیں
اتار دے جو کنارے پہ ہم کو کشتیء وہم
تو گرد و پیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں
نہ کوئی زخم ،نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گذر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم ،یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اک زمانے میں