یہ اُنگلیاں بُھوک سے بِلبلاتے بچوں کے
حلقوم میں گڑی ہیں
یہ دستِ قاتِل ہے جس کی نس نس میں اُس کے
آقا کی بیڑیاں پڑی ہیں
اب اُس کے آقا نے حُکم شاہی سُنا دیا ہے، بتا دیا ہے
ابھی یہ مخلُوق جانکنی کے عذاب سہہ کے بھی پل رہی ہے
ابھی اُمیدیں مچل رہی ہیں، ابھی تلک نبض چل رہی ہے
ہوا کے جھونکوں میں زہر بھر دو، یہ زندگانی تمام کر دو
اب اُس کے آقا نے حُکمِ شاہی سُنا دیا ہے کہ
باج لاؤ، خراج لاؤ، یا ویٹ لاؤ
تمام دولت سمیٹ لاؤ
نہتی مخلُوق کو بھنبھوڑو، گُلاب نسلوں کو بُھون لاؤ
تمام کھیتوں میں بُھوک بو کر
بِلکتے بچوں کا خُون لاؤ
خُورشید انور