مُحبت جانتی ہے، کون سا دِل ہے گداز اتنا
اسے کس دِل میں بسنا ہے
یہ کشتی جانتی ہے
کون سے طُوفاں گُزر کر کِس جزیرے جا کے لگنا ہے
یہ ایسی پیاس ہے، جو جانتی ہے کون سے ہونٹوں پہ رُکنا ہے
یہ وہ قطرہ ہے شبنم کا
جِسے معلوم ہے کِس پُھول میں خُوشبو رچانی ہے
مُحبت جانتی ہے کب کہاں زُلفوں کی چھاؤں عام کرنی ہے
مُحبت جانتی ہے کِس گلی میں شام کرنی ہے
مُحبت جانتی ہے کہ یہ تیشہ کون سے ہاتھوں تھمانا ہے
کہاں شیریں کو رکھنا ہے، کہاں فرہاد لانا ہے
کہاں کب طُور کو جلنا ہے، کب موسیٰ کو آنا ہے
مُحبت انتہا پر جب پہنچ جاتی ہے تو پھر
کسی تفریق کی قائل نہیں رہتی
کہاں پردہ گِرانا ہے، کہاں پردہ اُٹھانا ہے
کہ کِس کی دِید کرنی ہے، کِسے جلوہ دِکھانا ہے
شبِ مِعراج کِس کو کِس طرح پاس اپنے عرشوں پر بُلانا ہے
نادر دُرّانی