اسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہوجاٰئیں
تو پھر پگھلا نہیں کرتے
پرندے ڈر کر اڑ جائیں
تو پھر لوٹا نہیں کرتے
یقیں اک بار اٹھ جائے
کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفاں
بارش نہیں لاتا
اسے میں نے ہی لکھا تھا
جو شیشہ ٹوٹ جائے تو
کبھی پھر جڑ نہیں پاتا
جو راستے سے بھٹک جائیں
وہ واپس مڑ نہیں پاتا
اسے کہنا وہ بے معنی ادھورے خط
اسے میں نے ہی لکھا تھا
اسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے